تحریر . یاسر پیر زادہ
مجھے اب بھی ایک خوش گمانی سی ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں جیسے ہم بن چکے ہیں۔ ہم اتنے برے نہیں ہیں۔ ایک غیرملکی شخص کو جو ہمارے ملک میں مہمان تھا، غیرمسلم تھا، اسے مذہب کے نام پر ہمارے ہی ملک میں قتل کیا گیا اور اُس کی لاش کو آگ لگائی گئی، مگر یہ ہم نہیں تھے۔ اِس واقعے کے ردِعمل نے بھی کسی حد تک یہ ثابت کیا ہے کہ ہم ایسے نہیں۔ بےشک ہم میں دنیا جہاں کی برائیاں ہیں اور سارا سال مجھ ایسے لوگ اِنہی برائیوں کا نوحہ لکھتے رہتے ہیں مگر اِس کے باوجود مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ قوم کسی خوف میں مبتلا ہو کر وہ سب کچھ کرتی ہے جو دراصل وہ کرنا نہیں چاہتی۔ جو باتیں میں کر رہا ہوں اُن کا کوئی لکھا ثبوت تو نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کچھ دلائل تو دیے ہی جا سکتے ہیں۔ کل چونکہ قائداعظم کا یومِ ولادت بھی تھا تو بات اُنہی سے شروع کر لیتے ہیں۔
پہلا لیڈر جو اِس قوم نے اپنے لیے چنا وہ سر تا پا سیکولر تھا۔ اُس کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، پہننا، سب کچھ انگریزی طرزِ زندگی سے مستعار تھا۔ قائداعظم سگار پیتے تھے، کتے پالتا تھے، بلیرڈ کھیلتے تھے، انگریزی سوٹ پہنتے تھے، انگریزی بولتے تھے، بینکوں میں پیسے رکھوا کر اُن پر منافع لیتے تھے، ساری زندگی اُن کی انگریزوں اور غیرمسلموں سے، بلاتخصیص مذہب و جنس، دوستیاں رہیں، اُن کی کابینہ کے ارکان میں غیرمسلم شامل تھے۔ جس محمد علی جناح کی کابینہ کے اجلاس میں تلاوت نہیں کی جاتی تھی اُس محمد علی جناح کو گزشتہ 75سال سے مذہبی رہنما بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کبھی اُن کی مذہبی وابستگی کے قصے سنائے جاتے ہیں، کبھی اُن کی تقاریر میں سے مذہب تلاش کیا جاتا ہے اور کبھی اُن کی شیروانی والی تصویر کو سرکاری قرار دے کر انہیں ’مشرف بہ مذہب‘ کیا جاتا ہے لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہی ہوئی ہیں۔ اور پھر جناح صاحب پر ہی موقوف نہیں، ہماری قوم نے بعد میں بھی جتنے لیڈر اپنی مرضی سے آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب کیے وہ سب کے سب لبرل، آزاد خیال اور حقیقت میں سیکولر تھے۔ آپ 1970سے لے کر آج تک اِس ملک کے تمام مقبول رہنمائوں کی فہرست بنا لیں اور دیکھیں کہ کیا اُن میں سے ایک بھی ایسا تھا/ تھی جس نے مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگے یا جو اپنی مذہبی وابستگی کی وجہ سے منتخب ہوا! کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا۔ 1970میں جب ملک میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو مشرقی اور مغربی پاکستان میں عوام نے جن دو جماعتوں اور لیڈروں کو ووٹ ڈالے کیا وہ مذہب کی بنیاد پر تھے؟ بالکل بھی نہیں۔ مذہب کا نعرہ صرف اِس حد تک تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں۔ اِس کے علاوہ عوام نے بالکل ایک سیکولر انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور اپنی پسند کے رہنماؤں کو لاکھوں ووٹ دے کر منتخب کیا۔ 1970کے بعد بھی عوام نے جن رہنمائوں کو منتخب کیا وہ بھی قد آدم لبرل اور آزاد خیال تھے بلکہ کسی حد تک مغرب زدہ تھے۔ اُن میں سے کوئی بھی اپنے مذہبی خیالات یا وابستگی کی بنیاد پر عوام میں مقبول نہیں ہوا، وہ اپنی کرشماتی شخصیت اور سیاسی نظریات (درست یا غلط)کی بنا پر عوام میں مقبول ہوئے۔ حتّیٰ کہ ہمارے عوام نے ایک اقلیتی فرقے سے بھی رہنما منتخب کیے اور یہ اپروچ عوام کی سیکولر سوچ کی غمازی کرتی ہے لیکن افسوس کہ اِن تمام مقبول رہنمائوں نے منتخب ہونے کے بعد نہ صرف مذہبی کارڈ استعمال کیا بلکہ اپنی شخصیت کو بھی مذہبی لبادہ پہنانے کی کوشش کی حالانکہ عوام نے انہیں مذہبی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیے تھے۔
عوام کے سیکولر ہونے کا ایک ثبوت اُن کی نجی محفلیں ہیں۔ ہماری شادی بیاہ کی رسمیں ہوں یا مذہبی تہوار، عوام نے اُس شدت پسندانہ رویے کو بہرحال قبول نہیں کیا جس کی ایک عرصے سے ترویج کی جا رہی ہے۔ ایک عام مڈل کلاس پاکستانی گھرانے کی شادی کی رسومات میں بھی اُس تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جس کا پرچار ہم دن رات کرتے ہیں۔آج کرسمس کا دن ہے، سوشل میڈیا پر لوگ، مسلم اور غیر مسلم، ایک دوسرے کو تہنیتی پیغامات بھیج رہے ہیں، بعض دفاتر میں مسیحی بھائیوں کے ساتھ مل کر کیک بھی کاٹا جاتا ہے، انہیں مبارکباد دی جاتی ہے۔یہ تمام باتیں عوام کی اکثریت کے سیکولر ہونے کا ثبوت ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ کہیں کہ میں سوشل میڈیا میں زندہ ہوں اور نہیں جانتا کہ اِس ملک میں دیہات اور چھوٹے شہروں میں انتہا پسندی کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔ ثبوت کے طور پر ملاحظہ ہو، مندروں کو آگ لگانا، جبری مذہب تبدیل کروانا اور اپنے مذہبی عشق کو سچا ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی جان لینا۔ اِس کے علاوہ بھی انتہا پسندانہ رویے کی ایسی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جو بطور پاکستانی ہمارے لیے باعث شرم ہوں گی۔ اور اِس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام کی بڑی تعداد صرف سیکولر لیڈروں کو ہی نہیں مذہبی جماعتوں کوبھی ووٹ دیتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام کی اکثریت اپنے روز مرہ کے رویوں اور مزاج میں واقعی اِس قدر شدت پسند ہو چکی ہے جتنی ہم آئے دن مذمت کرتے ہیں۔ میرا حسن ظن ہے کہ عوام کی اکثریت شدت پسند نہیں۔ جن لوگوں میں بظاہر ہمیں شدت پسندانہ رجحانات نظر آتے ہیں یا جو خود کو مذہبی ثابت کرنے میں بازی لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اُن میں سے بھی اکثر اپنی نجی محفلوں میں، جہاں انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا، اس انتہا پسندی کے خلاف نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ اُن کا طرز عمل بھی بالکل سیکولر ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ وہ خوف ہے جس نے انتہا پسندی کی ایک فضا پیدا کر دی ہے۔
اِس خوف سے نجات صرف ایساکرشماتی لیڈر دلا سکتاہے جس نے ایک خاص قسم کی عصبیت حاصل کر لی ہو، جو عوام کے لیے ’cult‘بن چکا ہو اور اُن کے لیے دیوتا کا درجہ رکھتا ہو۔ اس لیڈر کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا، وہ جو کہہ دے گا وہی حرف آخر ہوگا۔ میں یہ سطریں لکھتے وقت خود کو کوس بھی رہا ہوں کہ میں ذاتی طور ایسے ubermensch(فوق البشر، سپرمین) کے تصور کے خلاف ہوں مگر فی الحال کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں سوجھ رہاجس پر چل کر مختصر وقت میں اِس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ ہمارے ہاں ایسے چھوٹے موٹے ubermenschبھی آتے رہے ہیں مگر بجائے اِس کے کہ وہ عوام کو اِس خوف کے حصار سے نکالتے وہ خود کچھ عرصے بعد اسی حصار میں قید ہوگئے اور انہوں نے سر پر اورنگ زیب کی طرح ٹوپی پہن لی جبکہ عوام نے انہیں انگریزی سوٹ میں منتخب کیا تھا۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔ بشکریہ جنگ
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام