صفحہ اول / پاکستان / کالاش کمیونٹی کا چلم جوشٹ تہوارروایتی انداز میں منایا گیا

کالاش کمیونٹی کا چلم جوشٹ تہوارروایتی انداز میں منایا گیا

کالاش . دنیا کی نایاب کالاش کمیونٹی کا سہ روزہ چلم جوشٹ تہوار گزشتہ روز اپنی روایتی انداز میں دنیا میں امن و آشتی اور خوشحالی کے لئے اجتماعی دعا پر بمبوریت وادی کے بتریک گاؤںمیں واقع چھارسو (رقص گاہ )میں اختتام پذیر ہو گیا۔

کالاش تہذیب و ثقافت کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے جبکہ مذہب کا بقول ان کے شمار دنیا کے ان لکھے مذاہب میں ہوتا ہے جو قدرت کےاور فطرت کے ہم آہنگ ہے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے چترال کی تین وادیوں بریر، رمبوراوربمبوریت میں کالاش کمیونٹی تقریباً چار ہزار نفوس پر مشتمل ہےجس کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سر فہرست آبادی کا کم ہونا ہے جبکہ پاکستان کی یہ چھوٹی سی مذہبی اور لسانی کمیونٹی حکومت و ریاست سے سرپرستی کا تقا ضا کرتی ہے تا کہ ہزاروں سال پرانی تہذیب کو خاموش معدومیت سے بچایا جا سکے۔

کالاش کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے باسیوں کے مذہبی تہواروں پر ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے سیاحوں کے حوالے سے گائیڈ لائنز بنائی جائیں جس کی مدد سے ہم اپنے مذہبی فرائض سکون کے ساتھ سر انجام دے سکیں جو کہ ہمارا آئین کی رو سے بنیادی حق ہے کہ ہم آزادی سے جیسے چاہتے ہیں ویسے ہی اپنی عبادات کریں اور کوئی باہر سے ہماری عبادات میں مخل نہ ہو۔

انہوں نے حکومت سے مزید مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ کالاش ویلیزکے لئے ٹورازم مینجمنٹ اتھارٹی بنائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے کالاشہ زبان،لباس اوردیگرثقافتی اقدار کوزندہ رکھنے کےلئے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے تاکہ صدیوں سے چترال میں آبادکالاش قبیلے کے لوگ اپنے ثقافت کوزندہ رکھیں ۔

سیاحت بے ہنگم ہے۔ یوٹیوبرز بے لگام ہیں جو زبردستی ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری پرائیویسی کو تہس نہس کر کے منفی انداز میں ہماری منفی تصویر کشی کر کے ہمارے بارے میں معاشرے میں ابہام پیدا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ کسی پلاننگ کے تحت ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد ورفت کی نگرانی کرے۔ ان کے لئے مخصوص علاقے ہوں جہاں سے وہ ہمارے کلچر سے انٹریکٹ کر سکیں۔

کالاش کمیونٹی کے مذہبی تہوارچلم جوشٹ قدیم زمانے سے سردیوں کی طویل اورتکلیف دہ دنوں کے گزرجانے اورموسم بہارکی خوشی میں منایاجاتاہے جس کے بعدمال مویشیوں کو گرمائی چراگاہوں کی طرف لے جایاجاتاہے ۔ جہاں چار مہینے اُنہیں پہاڑوں پر رکھنے کے دوران دودھ سے پنیر دیسی گھی وغیرہ تیار کرکے اُنہیں سردیوں کیلئے سٹور کیا جاتا ہے۔مال مویشیوں کی کالاش کمیونٹی میں بہت اہمیت ہے۔

رومبور، بریر اور بمبوریت کو ملا کر وادی کالاش کا نام دیا گیا ہے، کالاش پاکستان کے ضلع چترال کی وادی کالاش میں آباد ایک قبیلہ ہے جنہیں کالاش کافر بھی کہا جاتا ہے ان کے آباواجداد شام سے نقل مکانی کرکے چترال کے رومبور، بریر اور بمبوریت میں آبسے ہیں۔

چترال کی وادی کیلاش میں آباد تہذیب کے باسیوں کی ابتدا سے متعلق حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں اور یہاں کے لوگوں کے نسلی اجداد کا تعین بھی مشکل ہے۔ تاہم اس ضمن میں دو نظریات ہیں۔ پہلے تصور میں کالاش قبیلے کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ افغانستان کے راستے سکندراعظم کے ساتھ آئے تھے اور یہاں کے ہوکر رہ گئے۔ جبکہ ایک رائے یہ ہے کہ کالاش یونانیوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ماہرین آثارقدیمہ کی جدید تحقیق کے مطابق کالاش کے لوگ آریائی نسل سے ہیں۔

کالاش قبیلے کی زبان کالاشہ یا کلاشوار کہلاتی ہے۔ کالاش کے لوگ دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں، جس میں چلم جوش اور چوموس شامل ہیں۔ چوموس سب سے اہم اور مشہورتہوار ہے، جو 14 دن تک جاری رہتا ہے۔ یہ تہوار دسمبر میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار ان کی عبادت بھی ہے اور ثقافت بھی۔ چوموس تہوار ان کےلیے روحانی تازگی کے ساتھ ساتھ جسمانی مسرت بھی ہے۔

اس تہوار میں کالاش کے لوگ اپنے رب کےلیے، اپنے مرے ہوئے لوگوں، رشتے داروں اور اپنے مال مویشیوں کےلیے عبادت کرتے ہیں اور ان کی سلامتی کےلیے دعا کرتے ہیں۔ جیسنوک رسم بھی اس تہوار میں ادا کی جاتی ہے۔ اس رسم میں پانچ سے سات سال کے بچوں کو نئے کپڑے پہنا کر ان کو بپتسمہ دیا جاتا ہے۔

اس تہوار کے آخری تین دنوں میں، جس میں اس تہوار میں مرد اور عورتیں شراب پیتے ہیں اور تین دن کی روپوشی کے بعد یہ لوگ اپنی جگہوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ جس کے بعد یہ لوگ ساری رات ایک جگہ پر جمع ہوکر رقص کرتے ہیں اور گیت گاتے ہیں۔ یہ ان کا سال کا آخری دن ہوتا ہے۔

اس تہوار کے آخری روز لویک بیک کا تہوار ہوتا ہے، جس میں کالاش قبیلے کے مرد، خواتین، بزرگ اور بچے نئے کپڑے پہن کر مل کر رقص کرتے ہیں اور نئے سال کی خوشیاں مناتے ہیں۔ ان تہواروں میں عورتیں اونی سوتی کپڑوں کی لمبی قمیض پہنتی ہیں، جسے سنگچ کہتے ہیں۔ ان کے لباس میں دلچسپ پہناوا ان کی ٹوپی ہے، جو کمرتک لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس ٹوپی پر مونگے سیپیوں کا خوبصورت کام کیا گیا ہوتا ہے، جسے پِھس کہتے ہیں۔

کالاش قبیلے کا دوسرا بڑا تہوار چلم جوش ہے، جو سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے۔ اور ہم اسی ایونٹ کو کور کرنے کےلیے اتنا لمبا سفر طے کرکے آئے تھے۔ اس تہوار کے اعلان کے ساتھ سردیوں کے تکلیف دہ حالات کو رخصت کیا جاتا ہے اور بہار کا استقبال کیا جاتا ہے۔

یہ شکرانے کی ایک رسم ہے اور عبادت بھی، جو سردیاں گزرنے کے بطور شکرانہ منائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے بقول جب اردگرد سخت سردی ہو اور برف باری پڑی ہو اور کٹھن حالات ہوں، جس میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے، اس میں جب اللہ آپ کو بہار کا موسم دیکھنے کا موقع دیتا ہے تو کیوں نہ شکرانے کا تہوار منایا جائے۔

وادی میں تین دن تک رقص و موسیقی، پینے پلانے اور لذیذ کھانوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ تہوار میں گل پاریک کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے، جس میں گاؤں کے تمام زچہ و بچہ پر ایک نوجوان دودھ چھڑکتا ہے اور خواتین اس نوجوان کو چیہاری کا ہار پہناتی ہیں۔

اس تہوار میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے جیون ساتھی چنتے ہیں اور ان کی شادیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ تہوار تین وادیوں رامبور، بمبورت اور بریر میں ادا کیا جاتا ہے، جس کے لیے ملک سمیت بیرونی ممالک سے بھی سیاح شرکت کرتے ہیں۔ کالاش قبیلے کے خواتین وحضرات اس جشن میں مل کر رقص گاہ میں روایتی رقص پیش کرتے ہیں۔

تہوار کے آخری روز کالاش مرد دوسرے میدان میں جمع ہوکر اکھٹے ہوجاتے ہیں، جہاں وہ اخروٹ کی ٹہنیاں، پتے اور پھول ہاتھوں میں لے کر انہیں لہرا لہرا کر اس میدان کی طرف دھیرے دھیرے چلتے ہیں، جہاں خواتین بھی ہاتھوں میں سبز پتے پکڑ کر انہیں لہراتے ہوئے ان کا انتظار کرتی ہیں۔

جب یہ گروہ خواتین کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو وہ پتے اور پھول ان پر نچاور کرتی ہیں اور ایک ہی وقت میں یہ پتے خواتین پر پھینکتے ہیں، جبکہ خواتین مردوں پر یہ پتے پھینک دیتی ہیں اور سب مل کر رقص کرتے ہیں۔ جوشی تہوار کے آخری دن وادی میں چاہنے والے نئے جوڑے بمبوریت سے بھاگ کر شادی کا اعلان بھی کرتے ہیں۔

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے