تحریر:فرامرز رحمان زاد(ڈی جی خانہ فرہنگ ایران ،راولپنڈی)
حضرت امام رضاعلیہ السلام ا وران کی پیاری بہن حضرت فاطمہ قم سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ”عشرہ کرامت“منایا جارہا ہے عشرہ کرامت منانے کا سلسلہ ایران سے ہوا اوراب یہ پوری دنیا میں موجود امام ہشتم اوران کی پیاری بہن کے عقیدت مند بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے اوراس حوالے سے مختلف مساجد اوردینی مراکز میں محافل منعقد ہوتی ہیں ۔
یادرہے کہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت یکم ذیقعدہ جبکہ امام رضا علیہ السلام کی ولادت اسی مہینے کی گیارہ تاریخ کو ہوئی ہے اوراسی ایام کو عشرہ کرامت کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ خاندان رسالت کے ہرفرد کریم ہیں تاہم حضرت معصومہ علیہاالسلام کو کریمہ اہل بیتؑ اورامام رضا علیہ السلام کریم اہل بیت ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بہن کی ولادت سے لے کربھائی کی ولادت کے اس مبارک عرصے کو عشرہ کرامت کے طور پرمنایاجاتا ہے ۔
کرامت دراصل کرم سے ہے اور لغت میں اسکے بہت سارے معانی درج ہیں ،کرامت کے معنی ،بخشش و عطا،جلالت و شان بھی لکھے گئے ہیں جبکہ مشہور لغات دان راغب اصفہانی نے کہا ہے اگر یہ صفت خدا سے منسوب ہو تو بخشش و عطا کے معنی میںلیا جائے گااوراگریہ انسان کے لئے استعمال ہو تو اچھے اخلاق و کرادر کے طور پر اسکے معنی بیان ہوں گے،اسی طرح اس کے مترادف معانی میں پستیوں کی ضد، کردارکی بلندی، پاکیزگی روح اور گوہر جان کے علاوہ نوازش،بزرگی، عطا فرمانا، عنایت کرنا، جودو بخشش اور عمدگی وغیرہ بیان ہوئے ہیں۔
مختلف کتابوں میں کرامت کے دوحصے ذاتی اوروہبی بیان کئے گئے ہیں ،ذاتی کرامت سے مراد کردار کی بلندی ہے تاہم یہ صفت گناہوں اوربرائیوں کے ارتکاب اورانجام کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے یا ماند پڑ جاتی ہے ،اسی طرح اس کا دوسری قسم اکتسابی یا وہبی کرامت ہے انسان ریاضت کے ذریعے حاصل کرتا ہے اوراس میں کمالات کا درجہ حاصل کرتا ہے ۔
امام رضاعلیہ السلام کا مختصر زندگی نامہ:
حضرت امام علی رضا علیہ السلام منصوب باللہ بارہ اماموں میں سے آٹھویں امام ہیں ،آپ کی کنیت ”ابوالحسن“ جبکہ آپ رضا علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں۔
آپ کے والد گرامی، ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم(علیہ السلام)ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی تکتم تھا،جب حضرت امام رضا (علیہ السلام)کی ولادت ہوئی تو حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام)نے طاہرہ کا نام دیا،آپ کی کنیت ام البنین ہے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایک ہی زوجہ تھیں جن کا اسم گرامی” سبیکہ“ تھا جو کہا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی زوجہ ماریہ کے خاندان میں سے تھیں۔
آپ کی اولاد کی تعداد اور ان کے ناموں کے بارے میں مورخین نے مختلف باتیں نقل کی ہیں، بعض نے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کے نام ذکر کیے ہیں، بعض نے تین بیٹے اور ایک بیٹی بتائی ہے۔ شیخ مفید(علیہ الرحمہ)صرف محمد ابن علی کو آپ کے فرزند جانتے ہیں، ابن شہر آشوب اور طبرسی کا بھی یہی نظریہ ہے۔
امامت:
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام)کی شہادت کے بعد امام رضا (علیہ السلام) مقام امامت پر فائز ہوئے۔
ہجرت و بیان حدیث سلسلہ الذہب:
حضرت امام رضا(علیہ السلام)کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت 200یا 201 ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ مامون الرشید نے امام(علیہ السلام)کے لئے خاص راستہ مقرر کیا تا کہ آپ ان علاقوں سے نہ گزریںجہاں آپ کے معتقدین اورماننے والے نہ ہوںکیونکہ ان کے وہاں سے گزرنے سے ان کے ماننے والے جمع ہونے کا خطرہ تھا جس کے باعث بصرہ، خوزستان، فارس اور نیشابور سے خراستان لایا گیا۔
جب آپ نیشابور پہنچے تو آپ نے اپنے استقبال کیلئے جمع ہونے والے معتقدین اورنیشابورکے شہریوں سے حدیث سلسلہ الذہب بیان فرمایا:اسحاق ابن راہویہ روایت کرتا ہے کہ: جب حضرت امام رضا(علیہ السلام)خراسان کی طرف سفر کرتے ہوئے نیشابور پہنچے جہاں پر محدثین جمع ہوگئے اور انہوں نے عرض کیا: اے فرزند پیغمبر!ہمارے شہر سے تشریف لائے ہیں اور ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائیں گے؟ جس پر آپ نے فرمایا:”میں نے سنا اپنے والد موسی ابن جعفر(ع)سے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد جعفر ابن محمد (ع)سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد محمد ابن علی(ع)سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد علی ابن الحسین(ع)سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد حسین ابن علی(ع)سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع)سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص)سے سنا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے سنا کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پروردگار عزوجل سے سنا کہ اس نے فرمایا: ترجمہ:کلمہ لا اِلہ ا ِلا اللہ میرا قلعہ ہے، پس جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے، میرے عذاب سے بچ جائے گا”، پس جب حضرت کی سواری چل پڑی تو آپ نے بلند آواز میںفرمایا: اس کی کچھ شرطیں ہیں اور میں(امامت) ان شرائط میں سے ہوں۔
ولی عہدی:
جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام)ہرگز خلافت کو قبول نہیں کررہے تو کہا: آپ جو خلافت کو قبول نہیں کررہے تو میرے ولی عہد اور جانشین بنیں تا کہ میرے بعد خلافت آپ تک پہنچے۔ حضرت امام رضا(علیہ السلام)نے جبکہ مامون کی نیت کو جانتے تھے، فرمایا: خدا کی قسم، میرے والد نے اپنے آبا سے اور انہوں نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی ہے کہ مجھے انتہائی مظلومیت سے زہر دی جائے گی اور تم سے پہلے انتقال کروں گا، آسمان و زمین کے ملائکہ مجھ پر گریہ کریں گے، اور دیارغیر میں ہارون کے پاس دفن کیا جاﺅں گا۔ مامون نے کہا: اے فرزند رسول اللہ!جب تک میں زندہ ہوں کس کی جرات ہے کہ آپ کی توہین کرے اور آپ کو قتل کرے؟
حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا: اگر میں بتانا چاہوں کہ کون مجھے قتل کرے گا تو بتا سکتا ہوں۔ مامون نے کہا: آپ اس بات کے ذریعہ اپنے آپ کو سبکدوش کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ کہیں کہ آپ دنیا کے طالب نہیں ہیں اور دنیا کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے!امام ہشتم علیہ السلام نے فرمایا:اے مامون !میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت کیا ہے۔ مامون نے کہا: میری نیت کیا ہے؟ امام ہشتم علیہ السلام نے فرمایا: تو چاہتا ہے کہ مجھے اپنا ولی عہد بنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ علی ابن موسی الرضا دنیا سے دوری اختیار نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ دنیا تک پہنچ نہیں سکے، دیکھو جب مامون نے ولی عہدی کی پیشکش کی تو اس نے کیسے خلافت اور ریاست کی لالچ کی اور اسے قبول کرلیا۔ جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام اس کی نیت کو جانتے ہیں تو غصہ سے کہنے لگا: آپ ہمیشہ ناگوار باتیں میرے سامنے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو میری ہیبت اور جلال سے امان میں سمجھتے ہیں!خدا کی قسم، اگر آپ نے میری ولی عہدی کو قبول کرلیا تو ٹھیک، ورنہ آپ کو مجبور کروں گا اور اگر پھر بھی قبول نہ کیا تو آپ کی گردن اڑا دوں گا۔
امام ضاعلیہ السلام نے جب دیکھا کہ مامون اپنے ارادہ سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا تو آپ نے کچھ شرائط کے ساتھ ولی عہدی کو قبول کیا ۔
شہادت:
جب مامون کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے ناپاک مقاصد تک نہیں پہنچ پاتا، بلکہ اس نے امام رضاعلیہ السلام کو ولی عہدی کا منصب دے کراپنے آپ کو مشکل میں ڈال بیٹھا ہے تو اس نے آنحضرت کو زہر سے شہید کردیا۔
حضرت علی ابن موسی الرضاعلیہ السلام کا روضہ مطہر ایران کے شہر مشہد مقدس میں ہے، اس روضہ مقدس کی زیارت کے لئے دنیا بھر سے لوگوں کا سمندر مشہد مقدس کا رخ کرتے ہیں۔ آپ کی ولایت، مودت اور محبت ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں آپ کے حرم مطہر اور ضریح مبارک کی زیارت کے لئے کشش پیدا کرتی ہے۔
حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کی مختصر تاریخ زندگی:
فاطمہ بنت موسی بن جعفر، حضرت معصومہ کے نام سے مشہوراورآپؑ امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی بہن ہیں،معصومہ اور کریمہ اہل بیت آپ کے مشہور القاب ہیں۔علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب زاد المعاد آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے آپ سلام اللہ علیہا معصومہ کا نام دیا ،آپ اپنے بھائی امام رضا سے ملنے کے لئے مدینہ سے ایران کے سفر پر نکلے لیکن راستے میں بیماری کی وجہ سے قم میں آپ کی وفات ہوگئی اور وہیں پر دفن ہیں۔
قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت اور وفات نور الآفاق نے پہلی ذیقعدہ سنہ 173 ہجری اور تاریخ وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری لکھا ہے اسی کی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں 1 ذی القعدہ کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔
”تاریخ قم “ میں لکھا ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا سنہ 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضا سے ملاقات کے لئے مدینہ سے ایران کا سفر کرتی ہے، اس وقت امام رضا خراسان میںمامون عباسی کے ولی عہد تھے دوران سفر آپ بیمار اوروفات پا جاتی ہیں ایک راوی سید جعفر مرتضی عاملی کے مطابق حضرت معصومہ جب ساوہ نامی گاﺅں پہنچی تو وہاں آپ کو مسموم کرکے شہید کردیا گیا ہے۔
ایک اورروایت کے مطابق آپ سلام اللہ علیہا نے قوم چلنے کا کہا اورقم میں آپ سلام اللہ علیہا نے موسی بن خزرج اشعری کے گھر پرقیام کیا اوروہاں پر وفات پائی آپ کی میت کوقوم میں سپرد خاک کردیا گیا جو اس وقت مرجع خلائق ہے اوردنیا بھر سے کروڑوں عقیدت مند زیارت کیلئے تشریف لاتے ہیں۔نوٹ:( حبیب اللہ آل ابراہیم نے فارسی کا اردومیں ترجمہ کیا ہے)
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام