صفحہ اول / کالم و مضامین / عالمی مسائل کا حل ……. ایک مخمصہ!

عالمی مسائل کا حل ……. ایک مخمصہ!

تحریر:انتونیو گوٹیری سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے میرا زیادہ تر وقت مختلف عالمی رہنماؤں کے ساتھ گفتگو میں گزرتا ہے اور میری نظر ہر لمحہ عالمی رجحانات پر رہتی ہے۔ میرے نزدیک ایک بات تو طے ہے کہ ہماری یہ دنیا بین الاقوامی تعلقات کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ لیکن عالمی فیصلہ سازی پر ایک جمود کی سی کیفیت طاری ہے اور یہی اصل معمہ ہے جس کی گتھیاں سلجھانا سب سے اہم ہے۔ ایک طرف دورِ حاضر کے کئی عالمی لیڈر ہیں جو ہماری اس دنیا کو درپیش مشترکہ خطرات مثلاً کرونا وائرس، موسمیاتی تبدیلی، قواعد وضوابط کی پابندیوں سے عاری نئی ٹیکنالوجیز کے پھیلاؤ وغیرہ کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔

وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس کا کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہئے۔ پھر بھی یہ مشترکہ سوچ، مشترکہ عمل کا روپ دھارتی دکھائی نہیں دیتی۔ تقسیم کی لکیریں واقعی گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ ویکسین کی غیرمساوی اور غیرمنصفانہ تقسیم کا معاملہ ہو یا غریب کی حق تلفی کرنے والا عالمی اقتصادی نظام، موسمیاتی بحران کے جواب میں سراسر ناکافی اور غیرموزوں اقدامات ہوں یا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور میڈیا کا شعبہ، جو اسی تقسیم کی بدولت نفع کما رہا ہے، یا پھر دنیا بھر میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات، یہ تقسیم ہمیں ہر طرف دیکھنے کو ملتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ دنیا اگر اپنے مشترکہ مسائل کی تشخیص پر متفق ہے تو اُن کا موثر حل نکالنے سے قاصر کیوں ہے؟ میری نظر میں اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی بیشتر صورتوں میں داخلی سیاست کا عکس بن کر رہ جاتی ہے۔ میں ایک ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہوں اور مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ ارادے کتنے ہی نیک کیوں نہ ہوں، بین الاقوامی امور پھر بھی ملکی سیاست کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں۔ جنہیں قومی مفاد سمجھ لیا جاتا ہے، وہ بڑی آسانی کے ساتھ وسیع تر عالمی فلاح پر غالب آ جاتے ہیں۔

ہیجان کی یہ کیفیت سمجھ میں بھی آتی ہے، چاہے آپ کج فہمی کی ان مثالوں کو لے لیں جہاں دونوں کی ہم آہنگی ملک کے اپنے مفاد میں ہو۔ ویکسین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کووڈ -19 جیسا وائرس ملکی سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتا۔ ہمیں ہر جگہ، سب کے لئے ویکسین یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وائرس کی نئی اور زیادہ خطرناک اقسام، جو کسی بھی ملک میں سامنے آ سکتی ہیں اور کسی بھی شخص کو متاثر کر سکتی ہیں، سامنے آنے کا خطرہ کم کیا جا سکے۔ ویکسین لگانے کے عالمی منصوبے کے تحت سب کے لئے ویکسین کی دستیابی کو ترجیح بنانے کے بجائے حکومتیں صرف اپنے ہی عوام کی حفاظت کے لئے اقدامات کر رہی ہیں۔

لیکن یہ حکمت عملی کا محض نصف حصہ بنتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے عوام کا تحفظ یقینی بنانا حکومتوں کا ہی کام ہے۔ لیکن جب تک وہ پوری دنیا میں بیک وقت ویکسین لگانے کے لئے کام نہیں کریں گی، ویکسین لگانے کے قومی منصوبے کسی کام نہیں آئیں گے کیونکہ نئی اقسام کے وائرس سامنے آتے رہتے ہیں اور پھیلتے رہتے ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ دورِ حاضر کے کئی عالمی ادارے یا فریم ورکس فرسودہ ہو چکے ہیں یا کمزور ہو کر رہ گئے ہیں اور جغرافیائی و سیاسی تقسیم ان میں ضروری اصلاحات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتی ہے۔مثال کے طور پر عالمی ادارہ صحت کا دائرہ اختیار ہرگز اُس پائے کا نہیں ہے جو عالمی وباؤں کے جوابی اقدامات کی تنظیم کے لئے ضروری ہے۔

دوسری جانب جن بین الاقوامی اداروں کے پاس زیادہ اختیارات ہیں، انہیں یا تو اس تقسیم نے مفلوج کر دیا ہے – مثلاً سلامتی کونسل – یا پھر وہ غیرجمہوری انداز میں کام کرتے ہیں – ہمارے کئی بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس کی ایک مثال ہیں۔ قصہ مختصر، عالمی طرزِحکمرانی عین اس گھڑی میں ناکامی سے دوچار ہے جب دنیا کو عالمی مسائل کے حل کے لئے یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔

ہم سب کو اپنے ملک اور اپنی دنیا کے مفاد کی خاطر، دنیا کے لئے ناگزیر عام اشیاء مثلاً صحت عامہ اور ایسی آب وہواب جو زندہ رہنے کے لئے موزوں ہو، کے تحفظ کی خاطر مل کر کام کرنا ہو گا کیونکہ یہ وہ اشیاء ہیں جو فلاحِ انسانی میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم سب کے لئے امن، پائیدار ترقی، انسانی حقوق اور عزت ووقار کے اجتماعی عالمی مقاصد پر مبنی مشترکہ خواہشات کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو یہ اصلاحات ناگزیر ہیں۔

یہ ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے جس میں قومی سالمیت و خودمختاری سے متعلق سوالات کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ لیکن کچھ نہ کرنا تو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ دنیا کو زیادہ موثر اور زیادہ جمہوری بین الاقوامی نظاموں کی اشد ضرورت ہے جو لوگوں کے مسائل حل کر سکیں۔ وباء سے ہم نے یہی سبق حاصل کیا ہے کہ ہم سب کی زندگیاں آپس میں جڑی ہیں۔ اگر ہم کسی ایک کو پیچھے چھوڑ دیں گے تو سب کے پیچھے رہ جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

انتہائی کمزور خطے، ممالک اور لوگ عالمی پالیسی کے اس مخمصے کا اولین شکار بنتے ہیں۔ لیکن یہ ہر جگہ، ہر شخص کے لئے بھی براہ راست خطرہ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اپنے ان عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ہم کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ انسانیت کے پیدا کئے ہوئے مسائل کو انسانیت ہی حل کر سکتی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں، میں نے ان مسائل پر ایک رپورٹ جاری کی تھی۔

ہمارا مشترکہ ایجنڈا (our common agenda) کے عنوان سے تیار کی گئی یہ رپورٹ ایک نقطہ آغاز ہے، ایک روڈمیپ ہے جس کی روشنی میں دنیا ایک جگہ جمع ہو کر طرزِحکمرانی کی ان مشکلات کو دور کر سکتی ہے اور اکیسویں صدی کے لئے کثیر فریقی سوچ پر مبنی نظام میں نئی قوت پیدا کر سکتی ہے۔ تبدیلی آسانی سے نہیں آ جائے گی اور نہ ہی راتوں رات آ جائے گی۔ لیکن شروعات کے طور پر ہم ان شعبوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن میں اتفاق رائے ممکن ہے اور پھر ان میں پیشرفت کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔

یہ ہماری سب سے بڑی آزمائش ہے کیونکہ اس میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ اس کے اثرات ونتائج پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو جب یہ اعتماد نہ رہے کہ ان کے ادارے کچھ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو اُن اقدار پر، جن کی بنیاد پر یہ ادارے قائم ہیں، اُن کا یقین ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ دنیا کے ہر گوشے میں ہمیں یہ اعتماد بکھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اصل میں مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ ہماری مشترکہ اقدار کہیں دھندلکوں کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔

ناانصافی، عدم برابری، بداعتمادی، نسل پرستی اور امتیاز کے تاریک سائے ہر معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ ہمیں انسانی عزت ووقار کو بحال کرنا ہو گا اور لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے جوابی اقدام کرنا ہو گا۔ خطرات آپس میں جڑے ہیں اور مسلسل بڑھ رہے ہیں، انسانی مصائب ومشکلات بے پناہ ہیں اور ہم سب کو خطرات درپیش ہیں، ان حالات میں ہمارا فرض ہے کہ اپنی آواز اٹھائیں اور اس بڑھتی آگ کو بجھانے کے لئے میدانِ عمل میں آئیں۔ بشکریہ جنگ

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے