صفحہ اول / کالم و مضامین / غیر فرار،حیدر کرار،ناصررسول،علی ؑابن ابی طالبؑ

غیر فرار،حیدر کرار،ناصررسول،علی ؑابن ابی طالبؑ

تحریر و تحقیق . پیر سید سرفرازعلی شاہ مداروی
نسل کی پاکیزگی انسان کی شخصیت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اسی اصول کومدنظر رکھتے ہوئے دیکھیںکہ علیؑ ابن ابی طالب ؑکا کس نسل و خاندان سے تعلق تھا ۔ آپ حضرت ابراہیم ؑ کے بڑے بیٹے اسماعیل ؑ کی نسل میں سے ہیں ۔ نسل ابراہیمی میں سے جناب فہر کا لقب قریش تھا اُنکی اولاد سے چودہ قبیلے جاری ہوئے جن میں بنو حارث ، بنو جمع ، بنو سہم ، بنو تیم بنو عدی ، بنو مخزوم ،بنو زہرہ ، بنو عبد الدار ، بنو مطلب ،بنو ہاشم ،بنو اسد ، بنو عبدالشمس ،بنو امیہ ، بنو عامر شامل ہیں ۔ آپ قبیلہ بنو ہاشم خاندان رسول سے ہیں ۔

حضرت عبد المطلب ؑ کے مختلف بیویوں سے دس بیٹے تھے ایک بیوی فاطمہ مخزومہ سے تین بیٹے زبیر ، ابو طالب ، عبد اللہ پیدا ہوئے ۔ ابو طالبؑ سے علیؑ اور عبد اللہ سے رسول کا ظہور پُرنور ہوا یعنی نبی کی طرح علی ؑبھی پاک صلبوںسے دنیا میں ظاہر ہوئے آپ کا خاندان بیت اللہ شریف کا مجاور و متولی تھا۔ آپ کے اجداد سورہ بقرہ کی آیات128/129۱ میں مانگی گئی دعائے ابراہیمی کی بنا پر مسلمان دین ابراہیمی کے وارث اور پیروکار تھے ۔

قوم وخاندان میں فرق،مولا علی ؑکی نبی سے رشتہ و قربت : یہ سب جانتے ہیں کہ دستور کے مطابق ہم قوم بیٹھک میں بیٹھتے ہیں جبکہ خاندان والے گھر کے اندر، علی المرتضٰی نبی پاک ﷺ کے خاندان کے فرد ہیں باہر والے نہیں۔رشتہ میں علی ؑ نبی کے سگے چچازاد تو تھے ہی لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو باپ کی آغوش میں جانے کی بجائے آپ اللہ کے رسول ﷺ کی آغوش میں آئے ۔

متعدد روایات کے مطابق دیوار کعبہ میں دراڑ اُس وقت کی یاد دلاتی ہے جب مادر علی ؑکعبہ کا طواف کر رہی تھی کہ اچانک درد زہ شروع ہو گیا اچانک کیا دیکھتی ہے کہ کعبہ کی دیوار پھٹ گئی وہ ڈر کے دور جانے کی بجائے کعبے کے اندر داخل ہو گئی صحن کعبہ میں بیٹھے کافر بھی یہ نظارا دیکھ رہے تھے وہ بھاگے اور کعبہ کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگے مگر تالہ نہ کھلا اور تھک ہار کے بیٹھ گئے ۔ تین دن کے بعد دیوار دوبارہ وہیں سے پھٹی اور فاطمہ بنت اسد نومولود کو لیکر باہر آئی ۔ اگر مادر علی دروازے سے کعبہ کے اندر جاتی اور پھر علی ؑپیدا ہوتے تو فضیلت کی بات نہ ہوتی مگر دیوار کا پھٹنا پھر ملنا پھر تین دن بعد دوبارہ پھٹنا اور فاطمہ بنت اسد کے باہر آنے کے بعد دوبارہ ملنا اور پھر آج تک دراڑ کا موجود ہونا ایسی فضیلت کی بات ہے جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی ۔

جب فاطمہ بنت اسد بوقت ولادت خانہ کعبہ کی دیوار شق ہونے کے بعد کعبے میں داخل ہوئیں اور مولا علی ؑ کی پیدائش کے بعد کعبے سے باہر آئی تو سامنے رسول اللہ منتظر کھڑے تھے ۔ فاطمہ بنت اسدکہنے لگی بھتیجے دیکھو تو سہی کیسا بچہ پیدا ہوا ہے تین دن سے اس نے نہ آنکھ کھولی ہے نہ دودھ پیا ہے اللہ کے رسولنے علی ؑ کو اپنی آغوش میں لیا تو علی ؑ نے فوراً آنکھیں کھول کر دنیا میں سب سے پہلے اللہ کے رسول کی زیارت فرمائی ، معصوم رسول نے اپناپاکیزہ لعاب دہن علی ؑ کے منہ میں ڈالا جو علی کی گھٹی تھی ۔ پھر کچھ ہی عرصہ گذرا تھامکہ میں قحط آگیا جو علی ؑ کا نبی کے گھر آنے کا سبب بنا ۔ معتبر روایات کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے چچا عباس کو کہا کہ ابو طالب سے دو بیٹے گود لے لیں چنانچہ عقیل کو عباس نے اور علی کو اللہ کے رسول نے گود لے لیا ۔یوں علی مکتب رسالت میں تعلیم پانے والے پہلے فرد بن گئے ۔

حیدر کی وجہ تسمیہ : اس حوالے سے دو واقعات ملتے ہیں پہلا یہ ہے کہ آپ کی والدہ آپکو جھولے میں لٹا کے کسی کام میں مصروف ہو گئی تو ایک اژدھا آگیا جب اُس نے ڈسنے کے لئے منہ کھولا تو علی کے ننھے انگوٹھے اس کے منہ میں داخل ہو گئے اور انگوٹھوں نے حرکت کی تو اژدھا سر سے دم تک چر گیا ۔ فاطمہ بنت اسد نے یہ نظارا دیکھا تو بے ساختہ حیہ درہ حیہ درہ پکارنے لگی عربی میں حیہ بڑے سانپ کو اور درہ چیرنے کو کہتے ہیں۔ دوسرا واقعہ یہ ہے قریش کے رواج اور سرداروں کی فرمائش پر علی کو ایک اژدھے کے آگے لٹا یا گیا( قریش اس اژدھے سے بچے کے حلالی ہونے کا فیصلہ کرتے تھے اگر اژدھا بچے کو تکلیف دیتا تو ماں کو بد کردار سمجھتے اور اگر کچھ نہ کہتا تو بچہ حلالی سمجھا جاتا )جونہی اژدھا قریب آیا تو علی نے اپنے پاﺅں یا ہاتھوں کے انگھوٹھے منہ میں ڈال کر حرکت دی تو اژدھا سر سے دم تک چر گیا ۔

علی رسول خد ا ﷺ کے لے پالک بیٹے: آپ اللہ کے رسول ﷺ سے پورے تیس سال چھوٹے ہیں ۔ اگر کوئی تیس سال کی عمر کا شخص کسی ایک یا دو سال کی عمرکے بچے کو گود لے پالے کیا وہ اُس کا باپ نہیں ہوگا ؟؟؟؟ والد وہ ہوتا ہے جس کے نطفہ سے انسان کی پیدائش ہوتی ہے جبکہ باپ وہ ہوتا ہے جو پرورش و تربیت کرتا ہے کسی بھی انسان کا والد تو ایک ہی ہوگاجبکہ باپ ایک سے زائد بھی ہو سکتے ہیںمثلاً استاد بھی روحانی باپ ہی ہوتا ہے اور پیرو مرشد بھی ۔

مکتب رسالت کے پہلے کُل وقتی طالب علم : علی ؑ مکتب رسالت کے پہلے کُل وقتی طالب علم ہیں جنھیں اللہ کے رسول نے کھلایا پلایا سُلایا پالا پوسا ،پڑھایااور تر بیت فرمائی ۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ میں نبی کے ساتھ ایسے رہتا جیسے اوٹنی کا بچہ اپنی ماںکے ساتھ، اور رسالت کی خوشبو سونگھتا ۔علی کا یہ اعزاز پوری کائنات میں کسی کو حاصل نہیں ہے فضیلت اس بات میں نہیں کہ محمد بن عبد اللہ نے علیؑ کی پرورش کی بلکہ فضیلت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ نے مولا علی ؑکی پرورش فرمائی ۔ علی ؑ مکتب رسالت کے پہلے کُل وقتی طالب علم ہیں جو سال یا دوسال کی عمرمیں ہی داخل ہو گئے تھے کُل وقتی طالب علم اور جز وقتی میں بہت فرق ہوتا ہے کُل وقت ہر وقت استاد کی نظروں کے سامنے رہتا ہے سیکھتا ہے جبکہ جز وقتی ایک مخصوص وقت کے لئے سکول جاتا ہے ۔

علیؑ اہل البیت میں سے ہیں : آیت تطہیر میں اللہ تعالی نے لفظ البیت نازل فرمایا ہے عربی کا اصول ہے اگر کسی لفظ سے پہلے ال لگ جائے تو وہ نکرہ سے معرفہ ہو جاتا ہے جیسے یوم سے مراد کوئی دن الیوم سے مراد آج یعنی خاص دن ہے ۔ زمین پر موجود افضل ترین گھر دو ہیں ۱۔ بیت اللہ ۲۔ بیت الرسول قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ابراہیم و اسماعیل سے پختہ عہد کیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والو اعتکاف کرنے والو رکوع و سجود کرنے والو کے لئے پاک صاف رکھو یعنی اللہ نے ابراہیم و اسماعیل اور انکی آنے والی اولادوں کو بیت اللہ شریف کا متولی قرار دے دیا کیونکہ صفائی ستھرائی رکھنے والا متولی ہی ہوتا ہے ۔چونکہ اللہ کے گھر میں توکوئی رہتا نہیں ہے اس لئے اہل البیت سے مراد اللہ کے گھر یعنی بیت اللہ شریف کے متولی و مجاور ہی مراد ہو نگے ۔ قریش اپنے آپ کو آل اللہ کہا کرتے تھے لیکن حقیقی اہل البیت خاندان رسول ہے شبلی نے بھی لکھا ہے آباﺅ اجداد رسول بیت اللہ کے متولی و مجاور تھے ۔

جناب حضرت ہاشم پھرعبد المطلب پھر ابو طالب بالترتیب بیت اللہ کے متولی ہوئے ۔ایک متولی نے دوسرے کوحکم الہی کے تحت ہی اپنا جانشین اور بیت اللہ کا مجاور و متولی قرار دیا ۔ جناب ابو طالب کے بعد اللہ کے رسول ﷺ بیت اللہ کے مجاور و متولی تھے آپ کے بعد آپکی بیٹی فاطمہ الزہرہ اور لے پالک بیٹا و داماد و سگا چچا زاد بھائی علی ابن ابی طالب بیت اللہ کے مجاور و متولی بنتے ہیں ، پھر قرآن کی رو سے فرزندان رسول قرار پانے والے حسنین کریمین ہیں جن کی وجہ سے زمین پہ اولاد رسول کا وجود ہے ۔

علی اور اولاد علی کا خاص امتیاز: مذکورہ شخصیات کی ایک شان و امتیاز یہ بھی ہے کہ قرآن کے کئی احکام کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا مثلاً قران پاک میں نبی کے گھر کے حوالے سے تمام مومنین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بغیر اجازت نبی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتے ۔جبکہ مذکورہ شخصیات تونبی کے گھر کے افراد ہیں پیرو مرشد کی اولاد اگر اس کی مرید بھی ہو تو پیر و مرشد کے گھر کے حوالے سے جن احکام کا مریدین پہ اطلاق ہوتاہے اُن کا پیر کی اولاد پہ نہیں ہوا کرتا ۔

علیؑ کی علمی بلندی : علیؑ کی مثال اُس خالی پاک برتن کی سی ہے جو پیدا ہوتے ہی اللہ کے رسول کی آغوش میں آگئے اور پورے دس سال تک خاموش رسول سے علم حاصل کرتے رہے چونکہ ابھی اعلان رسالت تو کیا نہیں تھا اس لئے کفار مکہ سے دشمنی کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی کہ وہ تنگ کرتے ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اعلان رسالت کے بعد ہونے والے مسلمانوں کی اللہ کے رسول نے ایسی تعلیم و تربیعت فرمائی کہ آج وہ علم کےءآسمان کے مہر و ماہ سمجھے جاتے ہیں تو سوچیئے اسی پاک رسول نے علی کو کتنا علم دیا ہوگا ؟ نبی کی باقائدہ تبلیغ کا کل عرصہ بیس سال بنتا ہے ابتدائی تین سالوں تک تو نبی کو بھی کھل کے تبلیغ کا حکم نہیں تھا جبکہ علی ؑ کی خاموش رسول سے دس سال اور اعلان کے بعد تیئس سال یعنی صحبت و حصول علم کا کل دورانیہ سب سے زیادہ تینتیس 33 سال بنتا ہے ۔

علی کا قبول اسلام : اسلام دین فطرت ہے پیدا ہونے والا ہر بچہ دین اسلام پہ ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے ہندو سکھ عیسائی یہودی بناتے ہیں علی پیدا ہونے کے تین دن بعد رسول ﷺ کی آغوش میں آئے اور ایک یا دو برس کے بعد مکمل طور پہ آغوش رسول میں آگئے پھر ساری زندگی اللہ کے رسول کی معیت میں گذار دی لہذا اب میں آپ کو کیا بتاﺅں کہ علی ؑنے کب اور کس عمر میں اسلام قبول کیا تھا ۔ کیا آپ نے کبھی کسی مسلمان کے گھر پیدا ہونے والے بچے سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ کب مسلمان ہوا تھا ؟؟ کیا یہ احمقانہ اور توہین کرنے والا سوال نہیں ہے ؟´ ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی آب و گل میں تھے کو ماننے جس طرح نبی کو پیدائشی نبی مانتے ہیں انھیں اسی طرح علی کو بھی پیدائشی مسلمان ماننا پڑے گا ۔

علی کا اظہار اسلام اور اُس کی اہمیت: اللہ کے رسول نے دین کی پہلی دعوت اپنے اقربین کو دی مگر کسی نے لبیک نہ کہا اُسی دس سے زیر تربیت رہنے والے بچے نے نصرت رسول کا اعلان کیا جیسے علی کہتے ہیں ۔ علی نے اعلان کر کے اپنے مربی و حبیب سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے کفار کے بیچ ہونے والی سُبکی سے بچایا۔ آج کوئی بھی غیر مسلم طنز کر سکتا تھا کہ کائنات کے سب سے بڑے ہادی نے دعوت اسلام دی تو کوئی ایک بھی ایمان نہ لایا ۔

مکی دور میں ایمان و اسلام کا معیار: نمازروزہ حج زکوة جہاد نماز جمعہ اور وہ کلمہ جسے آج ہم دین اور مسلمان ہونے کا معیار سمجھتے ہیں مکی دور میں فرض ہی نہیں ہوئے تھے ۔کلمہ قرآن کی سورہ محمد اور فتح میں ہے ۔ دونوں سورتیں مدنی ہیں بحوالہ تفسیر تقی عثمانی ۔ مکی دور میں ارکان اسلام فرض ہی نہیں ہوئے تھے حتی نماز جنازہ بھی فرض نہیں تھی اُس دور میں مسلمان کا معیار صرف یہ تھا کہ خلوص دل کے ساتھ توحید و رسالت پہ ایمان لا کے نصرت رسول کی جائے جس نے بھی یہ افعال سر انجام دیئے وہ مسلمان ہے ۔

فرزند ابو طالب کی نصرت رسول: جب اللہ کے رسول نے کھل کے تبلیغ دین شروع کی تو کفار آپ کو تنگ کرنا چاہتے تھے لیکن سردارمکہ ابو طالب کی سرپرستی ہونے کی بنا پر نبی کو تکلیف نہ دے سکتے تھے تب انھوں نے یہ کام اپنے بچوں کے ذمہ لگایا کہ وہ نبی کو جہاں دیکھیں پتھر ماریں ایک دن جب انھوں نے نبی کو پتھر مارے تو ابو طالب نے اُن بچوں کے والدین کو شکائت کی وہ کہنے لگے سردار بچے تو بچے ہیں اب انھیں کیا کہیں ۔ اگلے دن جب اللہ کے رسول باہر جانے لگے تو علی نے عرض کی مجھے بھی ساتھ جاﺅں گا ۔

چنانچہ حسب عادت بچے نبی کو پتھر مارنے کے لئے جونہی سامنے آئے علی ایک شیر کی مانند جھپٹے اور کسی کا ناک توڑ دیا کسی کا ہاتھ کسی کی ٹانگ توڑ دی الغرض سب بچوں کو شدید زخمی کر دیا شام کو جب ان بچوں کے والدین شکائت لیکر ابو طالب کے پاس آئے تو وہ مسکرائے اور انھی کا جملہ دہرایا کہ بچہ تو بچہ ہے اب بچے کو کیا کہوں ۔ اس واقعہ کی سچائی کی دلیل یہ ہے ایک کافر نے علی کو جنگ بدر میں قضیم ( ہڈیوں پسلیوں کو توڑنے والا ) کہہ کے پکارا تھایہ وہ لقب ہے جو کفار کے بچوں نے آپ کو بچپن میں اپنی ہڈیاں پسلیاں تڑوانے کے بعد دیا تھا ۔

شعب ابی طالب میں نصرت : نبوت کے ساتویں سال کے شروع میں قریش نے خاندان رسول کا مقاطعہ کرکے شعب ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ان دنوں علی ؑ چھپ چھپا کے گھاٹی سے نکلتے اور محصورین کے لئے گندم وغیرہ لے آتے ۔ ابو طالب راتوں کو نبی کو اٹھا کے علی ؑکے بستر پر اور علی ؑ کو نبی کے بستر لٹاتے تاکہ اچانک حملہ ہو تو نبی پر علی ؑ قربان ہو جائے ۔ یاد رہے نبی کایہ وہ پاک بستر ہے جس پر کافر ایک لمحہ کے لئے بھی بیٹھ نہیں سکتا مگر علیؑ اور ان کے والد ابو طالب دن ہو یا رات بستر رسول پہ سوتے بھی تھے اور بیٹھتے بھی تھے ۔

شب ہجرت علیؑ کی جانثاری : بستر رسول پہ سونا تو علی ؑ کی عادت تھی اور نبی پر جان قربان کرنا شہد سے زیادہ شیریں تھا اس لئے شب ہجرت پُرسکون سو گئے مضطرب ہوتے تو سو نہ سکتے اور نبی کا راز پوری رات تک راز نہ رہتا ۔ ہجرت کے موقع پہ بڑی فضیلت کی بات یہ ہے کہ نبی نے علی ؑکو اپنا نائب بناتے ہوئے تمام امانتیں علی ؑکے سپرد کیں اور کہا صبح امانتیں دیکر فواطم ( فاطمہ ؑبنت اسد فاطمہؑ بنت محمد )کو ساتھ لیکر مدینہ آجانا ۔

نبی پر مسلط کی گئی جنگوں میں علیؑ کی نصرت:شبلی نے مولاعلی ؑکو جنگ بدرکا ہیرو کہا ہے ۔اورابوالفتوح، رازی روض الجنان میں ہے70کافروں میں سے 35 کافروں کو تن تنہا مولا علی ؑنے واصل جہنم کیے باقی سب مسلمانوں نے ملکر35 قتل کیے ۔ابن اسحاق سے روائت ہے احد میں 22قتل ہونے والے کافروں میںسے بارہ تن تنہا علی نے قتل کیے جن میں ان کے علمبردار سورما بھی شامل تھے،جنگ اُحد میں علی کی فضیلت یہ ہے نبی نے فرمایا تم کیوں اپنے بھائیوں کے ساتھ نہیں مل گئے تو جواباً کہا لا کفر بعد الایمان ایمان کے بعد کفر نہیں ہے اِن لی ِبک اُسوہ (میرے لیے آپ کی اقتداءہے)مطلب یہ کہ مجھے تو آپ سے سروکار ہے مدارج النبوت۔

جنگ خندق میں تنہا علیؑ ابن ابی طالبؑ کا کارنامہ ہے جب فارس یلیل ایک ہزار سواروں کے برابر سمجھا جانے والا عمرو بن عبدود کو علی ؑ نے قتل کیا تو کفار کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ راہ فرار اختیار کر گئے ۔ خیبر کی فتح کا سہرا بھی علی کے سر ہے آپ نے مرحب کو قتل کرتے ہوئے وہ قلعہ فتح کیا جس پہ ساری فتح کا مدار تھا ۔ الغرض نبی پہ مسلط ہونے والی ہر جنگ میں علی نے اپناوہ بہترین پیش کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔

علی کثیر الصفات شخصیت : آپ میدان جنگ کے ہی شہسوار نہیں تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے شہسوار تھے ۔امام بخاری نے آپ کو بہترین قاضی لکھا ہے ، علم و حلم میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ، ریاضی ، فقہ تفسیر ، عربی زبان کے قوائد ، تفسیر قرآن ، سورتوں کے شان نزول ، خداشناسی ، صفات ثبوت سلبیہ ، مسلہ قضا و قدر ، قرآن کی سورتوں کے خواص ، طہارت ، صوم ، صلوة ، حج و زکوة ، تنوع قرآن ، علم التجوید ، آداب تلاوت قران ، قرآنی استخراج و استنباط ، تدوین حدیث ، تنویع حدیث ، کلیات فقیہ ، نکاح و طلاق و عدت ، شہادت ، حدود ، قصاص ، دیت ، مسائل مشکلیہ ، خطابی اقناعی جوابات ۔ اخبار غیبیہ ، علم کلام ، علم مناظرہ ، و احتجاج ، علم صرف و نحو ، علم لغت ، تشریح الاعضاء، تشخیص امراض ، دستور معالجات ، تدابیر حفظان صحت ، خواص مفرادات ، ان دیکھی مخلوقات ، علم نفسیات ، علم الحساب حرکت زمین ، زمین کی ہیت و شکل ، آسمان یا کرہ بخاری ، حرکت اجسام فلکیہ ، سورج سرچشمہ حیات ، سورج اور چاند کا محیط ، ستاروں میں آبادی ، وغیرہ ایسے عنوانات ہیں جن کی تفصیل آپ پڑھیں تو حیرن و ششدر ہوتے ہوئے بے ساختہ علی کو علم کا باب کہہ اٹھیں گے ۔

سید رضی نے آپ کے خطبات جمع کیے ہیں ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا لوگ کہتے ہیں یہ خطبات علی نہیں بلکہ سید رضی کے گھڑے ہوئے ہیں تو استاد نے کہا کہ رضی کے باپ کے پیدا ہونے سے بھی پہلے کے علما کی کتابوں میں یہ خطبات دیکھ چکا ہوں اور رضی کی کیا مجال کہ وہ ایسے خطبات لکھ سکے خطبات علی خود بتاتے ہیں کہ وہ علی کے خطبات ہیں ۔

رائج الوقت فقہ ہائے اسلام کے ماخذ : روئے زمین پہ موجود تمام مسلمان پانچ فقوں کے مطابق زندگی گذار رہے ہیں ۱۔ فقہ حنفی ،۲، مالکی ، ۳۔ شافعی ، ۴۔ حنبلی ، ۵۔ جعفری ۔، مذکورہ تمام فقوں کے ماخذ تلاش کریں تو آپ علی کے در پہ پہنچ جائیں گے فقہ حنفی امام ابوحنیفہ نے لکھی مگر وہ ضائع ہوگئی پھر اُن کے چار شاگردوں ابو یوسف ، زفر ، حسن بن لوی ، محمد الشیبانی نے فقہ ترتیب دیکر استاد کے نام سے منسوب کر دی ۔

ابو حنیفہ امام جعفر صادق ؑ سے دو سال تک تعلیم حاصل کر تے رہے اور حماد بن ابی سلیمان کے بھی شاگرد تھے وہ ابراہیم نخعی کے ابراہیم علقمہ کے اور علقمہ بن قیس علی ابن ابی طالب کے لشکر کے سردار اور شاگرد تھے اور عبد اللہ بن مسعود سے بھی تعلیم حاصل کرتے رہے تھے ۔ امام مالک ربیعہ کے شاگرد تھے ربیعہ عکرمہ کے عکرمہ عبد اللہ بن عباس کے اور وہ حضرت علی کے مشہور شاگردوں میں سے تھے ۔ امام شافعی امام مالک کے شاگرد تھے ، امام احمد بن حنبل محمد الشیبانی اور جعفرصادق کے شاگرد سفیان بن عینیہ کے شاگرد تھے ۔

علیؑ کا ذکر زمانہ قدیم کی کتب میں : سید محمود گیلانی آف سیالکوٹ اپنی کتاب ایلیا میں لکھتے ہیں ۔ پانڈوں اور کوروں کی جنگ میں سری کرشن جی مہاراج کورکیشتر کے میدان میں تشریف لاتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سچائی کے پیروکار مٹھی بھر ہیں لیکن باطل کے پرستار ٹڈی دل لشکروں سے زمین اٹی پڑی ہے کرشن جی اپنے پیروکاروں کو ضروری اپدیش دینے کے بعد تخلیہ میں جاتے ہیں اور مالک حقیقی کےحضور زمین بوس ہو کر دعا مانگتے ہیں ، ہے پریمشور سنسار پرم آتما تجھے اپنی ذات کی قسم جو آکاش اور دھرتی کا جنم کارن ہے اور اس کی قسم جو تیرے پیارے کا پیارا ہے تیرے پریتم کا پریتم ہے تجھے اس کا واسطہ جو اہلی ہے ،جو سنسار کے سب سے بڑے مندر میں کالے پتھر کے قریب اپنا چمتکار دکھائے گا تو بنتی سُن ،اور جھوٹے راکشوں کو نشٹ کر اور سچوں کو فتح دے اے ایشور ،ایلا ایلا ایلا، ایلا کون ہے ایک وِد یارتھی پنڈت بتاتے ہیں ۔

پراچین سمے کی پرانی زبانوں میں ایک سنسکرت ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سب سے پرانی بولی ہے اس میں کوئی کوئی شاکھیا ایسے بھی ہیں جو بولنے میں آجکل عام لکھنے پڑھنے اور بولنے میں آتے ہیں اسی طرح کا ایک نام ہے ایلا اس کا مطلب ہے بہت ہی اونچے درجے والا اور آہل آہلی یا آلی بھی اسی سے نکلا ہے جیسا کہ عربی زبان میں کہتے ہیں اعلی ، عالی ، علی تعالی ، وغیرہ ۔ پراچین سمے کے ویدوں میں ایسے بہت سے لفظ ملتے ہیں جن کو پڑھنے والے شبہ کر سکتے ہیں کہ وہ عربی کے بگڑے ہوئے یا سنسکرت سے عربی میں چلے گئے ہیں ۔

حضرت داﺅد علیہ السلام کے صحیفہ زبور سے: حضرت داﺅد علیہ السلام کے قدیم عبرانی زبان کی سطور میں لکھا ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے ،اس ذات گرامی کی اطاعت کرنا واجب ہے جس کا نام ایلی ہے اس کی فرمانبرداری سے ہی دین و دنیا کے کام بنتے ہیں اس گراں قدر ہستی کو حدار یا حیدر بھی کہتے ہیں جو بے کسوں کا سہارا ، شیر ببر ،بہت قوت والا اور کعابا ( کعبہ ) میں پیدا ہونے والا ہے ۔

کشتی نوح پہ اسمائے پنجتن کی تختی برآمد : محقیقین نے کشتی نوح دریافت کی اور اس پہ ایک تختی بھی ملی جس پہ پنجتن پاک ( محمد ، فاطمہؑ ، علیؑ ، حسنؑ ، حسینؑ ) کے وسیلہ پاک سے مدد مانگی گئی ہے تفصیل کے لئے سید محمود گیلانی آف سیال کوٹ کی کتاب ایلیا کا مطالعہ کریں ۔

پیروں کے پیر علی ابن ابی طالب : دنیائے تصوف کے سرخیل جنید بغدادی فرماتے ہیںکہ تصوف میں ہمارا امام اور ہادی علی ابن ابی طالب ہے ۔ تصوف کے تمام سلسلہ ہا کے جتنے بھی صوفی ، قلندر ، غوث ، قطب ، ابدال ، سُلطان گذرے ہیں سب علی علی علی کا ہی ورد کرتے ہیں فقراءمیں یہ بات مشہور ہے جب تک علی کی مہر نہ لگے ولی نہیں بنتا ۔ خود کو تمام رندوں کا امام کہنے والا قلندر زماں شہباز قلندر اپنے آپ کو درِ علی کا ایک ادنی اورحقیر فقیر سمجھتا ہے ۔

علمائے اسلام بھی علی کی محبت کا دم بھرتے ہیں: سارے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ علی کی محبت ایمان ہے اور کثرت سے احادیث رسول بیان کرتے ہیں کہ علی سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور علی سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق ۔ تنہا علی ابن ابی طالب پہ لکھی گئی نثر اور شاعری کی کتب کی اتنی تعداد بنتی ہے کہ جتنی کل تاریخ اسلام پر لکھی ہوئی ہیں ۔

دعوت فکر اورحاصل کلام: تمام مسلمانوں اور علماءباہمی اختلافات کی باتیں کر کرکے فتنہ انگیزی پھیلانے کی بجائے اللہ کے رسول کی آل و اولاد پہ اتفاق کرکے اُن کی تعلیمات پہ عمل کر کے لوگوں میں اسلام کی محبت پیدا کریں ۔ نبی کے سارے پیروکار ہمارے سر آنکھوں پر لیکن ہمارے آج کے لئے فائدہ مند تو دین کی تعلیمات ہی ہیں جو بالاتفاق اہل بیت رسول کے ذریعے ہی ہم تک پہنچی ہیں ۔جس طرح پیروکاران رسول اہل بیت پہ متفق تھے اسی طرح ہمیں بھی انھی پہ اتفاق کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے ۔

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے