میاںانوار الحق رامے
انسانوں نے صدیوں کے تجربات اور مشاہدات سے ایک عالمگیر نتیجہ نکالا ہے کہ جمہوریت نظم مملکت چلانے کیلئے بہترین نظام حکومت ہے.جس طرح ایک صحت مند انسان کو مختلف عوارض لاحق ہو سکتے ہیں اسی طرح جمہوریت کو بھی بیماری و ناتوانی کےطوائرس لاحق ہو سکتے ہیں. ان میں سب سے بڑا وائرس مقتدر اداروں کا دوسرے اداروں پر تغلب ہے.
مغربی جمہوریت سیاست کے باب میں اس ہمہ جہت فکری تبدیلی کا ایک بنیادی اصول ہے جس میں عوام الناس کی بنیادی ضروریات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے مغرب میں تحریک تنویر کے زیر عنوان ایک مربوط صورت اختیار کی . جمہوریت کا شجر اسی وقت پوری آب و تاب سے ثمر بار ہوتا ہے جب معاشرتی اور سماجی فضا اس کیلئے ساز گار ہو. دوسرے الفاظ میں جب تحریک تنویر سماجیات اور معیشت کے حوالے سے جو بنیادی اصلاحات تجویز کرتی ہے اس کے عمل درآمد سے ہی جمہوریت روح حیات بن جاتی ہے. جو معاشرے اس ہمہ جہت تبدیلی کو قبول نہی کرتے ان کے ہاں آزاد جمہوریت متوقع نتائج پیدا کرنے سے قاصر رہتی ہے.
جمہوریت کی برکات سے استفادہ کرنے کیلئے ایک مقامی ماڈل کی ضرورت ہوتی جس میں مقامی ثقافت, تہزیب و تمدن کے اجزا ء خیر شامل ہوتے ہیں. تحریک تنویر نے یورپ میں جنم لیا امریکہ سمیت تمام علاقوں کو متاثر کیا جسے آج ہم مغرب کے نام سے جانتے ہیں. 20ویں صدی کے آخر جب مشرقی یورپ کمیونزم کے چنگل سے آزاد ہوا تو لبرل جمہوریت کی عالم گیر فتح کا اعلان عام تھا. یہی اجماع سیکولرازم کے بارے میں وجود میں آیا جو جمہوریت کا توام ہے. جمہوریت کو چند سال پیشتر ایک خطرناک وائرس لاحق ہو گیا جس کو مغربی دانش نے بہت حد تک ختم کر دیا تھا. جب انہوں نے ہٹلر اور مسولینی سے از خود اعلان برات کر دیا تھا. یہ مقبولیت کا وائرس تھا جس نے فسطائیت کی صورت بد اختیار کر لی تھی.
مغرب کے نظام فکر نے اسے مسترد کر دیا تھا عوامی تائید سے جنم لینا والا یہ سیاسی عمل نتائج کے اعتبار اس کی روح کے متصادم تھا. اب اس نے دوبارہ جنم لیا ہے. برگِزٹ 2016ء میں امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی , فرانس میں نیشنل فرنٹ کیلئے عوامی تائید میں دوگنا اضافہ. اٹلی میں پانچ ستارہ تحریک کی نمو, اور ہنگری میں انے والی تبدیلی یہ سب جدید عصبیت اور مقبولیت کے مظاہرے ہیں. 20 صدی میں جو جمہوریت کے بارے میں اتفاق رائے پیدا ہو گیا تھا اس پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا تھا.
مگر جمہوری طور پر ایک سبک رفتار زندہ معاشرہ ہے وہ اپنے افکار اور طرز عمل پر نظر ثانی کرتا رہتا ہے. اس طرح وہ ارتقائی منازل بھی طے کرتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو حالات سے ہم آہنگ بھی رکھتا ہے. مغرب نے اجتماعی طور پر سیکو لرازم کو بھی اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا. لیکن مذہب کی سخت جانی نے سیکولرازم کے ہاتھوں مرنے سے انکار کر دیا تھا. تو مغرب کے اہل دانش و فکر نے مذہب کو ایک حقیقت کے طور قبول کر لیا تھا. اہل مغرب نے مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے لا دینی سیکو لرازم سے جزوی طور پر نجات حاصل کر لی تھی. مغربی اہل علم اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ جمہوریت کو مقبولیت اور ہیرو شپ کا عارضہ کیوں لاحق ہو جاتا ہے. اور اس بیماری کا علاج کیا ہے. مغربی معاشروں کی بنیاد یکساں اصولوں پر اٹھائی گئی ہے . سب سے اہم عامل معیشت ہے 20ویں صدی میں مغربی معاشروں میں نہ صرف استحکام تھا بلکہ امیر اور غریب طبقات کے درمیان زیادہ خلیج پیدا ہو رہی تھی.
ایک تجزیہ یہ ہے کہ جمہوریت میں پالیسی سازی منتخب نمائندوں اور ماہرین کے ذریعے کی جاتی ہے .امر یکہ جیسے ممالک کے سرمایہ داروں نے مینو فکچرنگ کو چین جیسے ممالک می منتقل کر دیا تھا اس کی وجہ سے مقامی طور پر عام آدمی کو بے روزگاری کا شکار ہونا پڑا تھا. اس سے بے چینی نے جنم لیا بالائی طبقات کے خلاف نفرت انگیز شدید جذبات پیدا ہوئے جن کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کرداروں نے اپنی مقبولیت کیلئے بے دردی سے استعمال کیا.اس طرح مقبول لیڈر عوام کے جذبات کو ایندھن بناتے ہوئے برسر اقتدار آگئے.
پاکستان میں جمہوریت حقیقی معنوں میں کبھی تھی ہی نہیں. پاکستان میں مقتدرہ کی حکومت تھی. جس کے ساتھ اس کی مرضی سے منتخب ہونے عوامی نمائندے اور ماہرین شریک رہے. یہ نظام ناکام ہوا تو اس کے ایک حصہ عوامی نمائندوں نے اس نظام کو چیلنج کر دیا, ابتدا میں یہ نواز شریف تھے تاہم انہوں نے نظام کو برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کی یہ نیم دلانہ کوشش تھی جو ناکام ہو گئی تھی.
دوسرا بڑا چیلنج عمران خان کی طرف سے چنگاڑتا ہوا سامنے آیا ہے. عمران خان بھی اسی نظام کا ایک اہم حصے تھے جنہوں نے اس نظام کے سب سے زیادہ طاقتور حلقے کو اپنے جارحانہ مقبولیت سے مملو اپنی تگ و دو کا نشانہ بنایا ہے. عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نظام کے کھوکھلا پن کو خوب آشکار کیا ہے. مقتدر اداروں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کو اپنا شعار بنا لیا تھا. اسلئے اسلام آباد میں برسر اقتدار حکمران ہمیشہ لرزاں و ترسان رہتا ہے.
سابق وزیر اعظم پاکستان جناب یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور ہر پاکستان کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست قابل قبول نہی ہے. نواز شریف جو تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے ان کو ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہے کہ وزیر اعظم کے علاوہ ملک کے اصل حکمران کوئی اور ہوتے ہیں. محترم عمران خاں نے بھی شکوہ کیا ہے کہ بظاہر نظر آنے والا وزیر اعظم بے اختیار ہوتا ہے ذمہ داری وزیر اعظم کی اور طاقت کے چشمے کہیں اور جگہ ہوتے ہیں.
وزیر اعظم کو اپنے حال و مستقبل اور بے اختیاری و بے توقیری کی فکر لاحق رہتی ہے اس کے اعصاب مضمحل رہتے ہیں. بیوروکریسی بھی شدید دباؤ کا شکار رہتی ہے الغرض فیصلہ سازی کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے خاص طور ان حالات میں جب اقتدار کی کشتی میں مختلف خیالات کے حامل لوگ شریک ہوں. ہر شریک خوان اقتدار سے زیادہ سےزیادہ سمیٹ لینے کی فکر میں سرگرداں ہو تو انجام نوشتہ دیوار بن جاتا ہے. چھوٹے پارلیمانی گروپ ہر وقت بلیک میل کرتے رہتے ہیں. کیونکہ حکومت کی بقا ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے. اگر یہ گروپ اپنی حمایت واپس لے لیں تو حکومت گر جاتی ہے. عمران خان نے بڑے حوصلے اور ہمت سے اتنا کچھ کہا ہے ان کا رعب و دبدبہ تو دورکی بات ہے بھرم بھی باقی نہی رہا ہے. ماضی کے 75 سالوں میں مقتدرہ کے حوالے سے اس طرز عمل کا مظاہرہ نہی کیا گیا. مقتدرہ کو آئین حدود میں پابند کرنے کا اعزاز بھی تاریخ میں عمران خان سر باندھا جائے گا.
عمران خان نے ہمیشہ بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے. ترقی یافتہ ممالک میں اعلی عدلیہ اداروں کے دائرہ کار و اختیارات میں توازن کی ضامن ہوتی ہے. ہمارے ملک میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں تصور کر لیا گیا ہے کہ مقتدرہ اور عدلیہ کسی کے سامنے جواب دہ نہی ہیں. اگر وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کریں تو ان کیلئے تحدید و توازن کا موثر نظام موجود نہی ہے. پاکستان میں پارلیمان اور انتظامیہ کو تو ویسے ہی بے توقیر کر دیا گیا ہے.عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ سے توقع کی جاتی ہے کہ اس ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیں گے. خداوند قدوس سے بصد اخلاص و عجز و نیاز دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب مکرم ص کے طفیل ہمارے ملک اور قوم کیلئے خیر کی صورت مقدر فرمائے.
نمبر1 پاکستان تحریک انصاف اقتدار حاصل کرنے کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات, ان کے مالی اور انتظامی اختیارات کے بارے کیا رویہ اور طرز عمل اختیار کرے گی.
نمبر2 . ملک کی معیشت کو استحکام دینے کیلئے کس اقتصادی اور معاشی ٹیم کے خدمات حاصل کی جائیں گی. شوکت ترین. حماد اظہر, اسد عمر کون معاشی ٹیم کوکون لیڈ کرے گا. تحریک انصاف اب تک معیشت کے حوالے سے کیا لائحہ عمل تیار کر چکی ہے.
نمبر3 پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے تعلقات کس نوعیت کے ہوں گے.
نمبر 4 امریکہ سے تعلقات کی جہت کیا ہو گی کیا سرد مہری جاری رہے گی.
نمبر 5 مسلم دنیا سے تعلقات میں کس قسم کی بہتری لائی جائے گی.
نمبر 6 مذہبی شدت پسندی کو کم کرنے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا.
نمبر 7 اقلیتوں کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے کیا جوہری تبدیلی لائی جائے گی.
نمبر 8 کرپشن کے خاتمے کیلئے کیا مقامی سطح پر کارکنان کی طرف سے فراہم کردی معلومات پر کوئی کاروائی ہو سکے گی. سابق تحریک انصاف کے دور میں ہر سرکاری شعبے میں رشوت ستانی میں اضافہ ہوا تھا اب اس کا کیا حل نکالا جائے گا.
نمبر 9 بلوچستان کے مسنگ پرسن اور محرومیوں کا تدارک کس طرح کیا جائےگا.
نمبر 10 جابرانہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کیا اسی طرح جاری و ساری رہے گی اس کا حل ہو گا.
نمبر 11 زراعت کی زبوں حالی اور چھوٹی صنعتوں کی بندش کا کیا علاج سوچا گیا ہے
نمبر12 آئی ٹی کی , نوجوانوں کو ملکی سطح پر تعلیم کا نظام کیسے قائم کیا جائے گا.
نمبر 13 ملک میں دوغلے نظام سے نجات کیلئے تحریک انصاف جو جدوجہد برپا کر رہی اس کو منزل مقصود ک پہنچانے کیلئے کیا لائحہ عمل مرتب کیا گیا.
نمبر 14 غربت و افلاس. بے روزگاری اور تنگ دستی جو 6 کروڑ انسانوں کا مقدر بن چکی ہے ان کرو کیسے نجات دلائی جائے گی. نمبر 15 ملک بھر میں طاقتور کارٹیلز اور مافیائون کا کا طوطی بولتا ہے اس کا کیا حل ہے.
نمبر 16 بیرونی سرمایہ کاری لانے اور سی پیک کو نئی زندگی بخشنے کیلئے کیا طرقہ کار اپنایا جائے گا.
17 غیر ملکی دوہرے مفادات کے حامل افراد کو کابینہ میں شامل کرنے کے بارے کیا پالیسی ہو گی.
نمبر 18 ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام لانے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا کیلئے کونسی حکمت عملی اختیار کی جائے گی.
نمبر 19 احساس پروگرام جو تحریک انصاف کا طرہ امتیاز ہے اس میں مزید بہتری لانے کے کیا اقدامات اٹھائےجائین گے.
نمبر 20 صحت کارڈ کے افادیت کے مد نظر کیا تعلیم کارڈ بھی جاری کیا جائے گا.
نمبر 21 پاکستان کے ذمے جو 130 ارب ڈالر کا جو غیر لکی قرضہ ہے اس کی ادائیگی کیسے کی جائے .
نمبر22موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کی عفریت سے بچنے کیلئے کیا مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے.
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے درمیان جو قیامت خیز فرق ہے اس کو ایک تین یا ایک پانچ کی سطح پر لانے کیلئے کیا کوئی پالیسی یا لائحہ عمل زیر غور. سپریم کورٹ کے جج اور فوج کے جرنیل کی تنخواہ اور عام عدالتی کلرک اور سپاہی کی تنخواہ اور مراعات میں فرق کو کیسے کم کیا جائے گا.
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام