اسلام آباد . وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں کسی مخصوص گروپ کی حمایت نہیں کررہا ہے، موجودہ حالات میں افغانستان میں سیاسی مفاہمت مشکل نظر آرہی ہے، افغانستان میں جو بھی حکومت بنے گی پاکستان اس کے ساتھ کام کرے گا.
افغانستان میں ممکنہ طویل خانہ جنگی کی صورت میں افغانستان کے بعد دوسرا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہوگا، واضح کردیا ہے کہ پاکستان فوجی اڈوں کی اجازت نہیں دے گا، نہیں چاہتے کہ ہماری سرزمین افغانستان میں حملوں کے لئے استعمال ہو، افغان حکومت ہر طرح کی حکومتی اور انتظامی خرابیوں کا الزام پاکستان پر لگارہی ہے، امریکہ کی کوشش رہی ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کسی معاہدے پر پہنچ جائے۔ وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
افغانستان کی صورتحال کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکل آئے گا لیکن اس وقت ایسا بہت مشکل نظر آ رہا ہے، یہ مشکل اس لیے ہے کیونکہ طالبان انکار کر رہے ہیں، طالبان کی سینئر قیادت پاکستان آئی تھی اور ہم نے انہیں منانے کی کوشش کی کہ وہ کسی سیاسی حل کی جانب آگے بڑھیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی حل ہی افغانستاں کو انتشار کی جانب جانے سے روک سکتا ہے، بدقسمتی سے جب طالبان یہاں آئے انہوں نے اشرف غنی سے مذاکرات سے انکار کردیا، ان کی شرط یہ ہے کہ جب تک اشرف غنی اقتدار میں ہیں وہ افغان حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 2019 میں جب پاکستان نے طالبان کو امریکہ سے بات چیت پر راضی کیا تھا تو میں نے تجویز پیش کی تھی کہ انتخابات سے قبل وہاں ایک عبوری حکومت ہونی چاہیے تاکہ انتخابات میں سب فریقین شامل ہوں، افغان حکومت نے عبوری حکومت کے خیال کو تنقید کا نشانہ بنایا. انہوں نے انتخابات کرائے اورصدر اشرف غنی منتخب ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ جب اشرف غنی صدر منتخب ہو گئے اور طالبان اس عمل میں شریک نہیں ہوئے، اشرف غنی نے اصرار کیا کہ طالبان ان سے بات کریں اور طالبان نے نہ ہی انہیں اورنہ ہی انتخابات کو تسلیم کیا ، طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کردیا اور اس طرح اس مسئلے نے جنم لیا اور یہ مسئلہ اب بھی جوں کا توں ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ افغان حکومت سمجھتی ہے کہ ہمارے پاس کوئی جادوئی طاقت ہے کہ ہم جیسا چاہیں گے اس پر طالبان کو راضی کرلیں گے، جب امریکیوں نے اپنے فوجی واپس بھیجنا شروع کیے اور خاص کر جب انہوں نے انخلائ کی تاریخ کا اعلان کیا تو اس کے بعد طالبان پر ہمارا اثر و رسوخ انتہائی کم ہوگیا کیونکہ طالبان نے سمجھا کہ انہوں نے جنگ جیت لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں ممکنہ طویل خانہ جنگی کی صورت میں افغانستان کے بعد دوسرا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہوگا، ہم سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، پہلی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے زیادہ پختون پاکستان میں ہیں، طالبان بنیادی طور پر پختونوں کی تحریک ہے اور اس کے اثرات پاکستانی علاقوں میں آئیں گے، 2003 اور 2004 کے بعد ایسا ہوچکا ہے اور ہمارے پختوں علاقوں میں افغانستان کی صورت حال کے نتیجے میں رد عمل آیا اور پاکستان کو 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ ہم نے امریکہ کی حمایت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ ہمارے پختوں علاقوں میں پھر مسائل پیدا ہوں گے، ستر ہزار جانوں اور معیشت کو100ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کے ساتھ ہمارے قبائلی علاقوں سے 30 لاکھ افراد کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا، یہ پہلی پریشانی ہے، دوسری پریشانی پناہ گزینوں کی ہے، ہمارے ہاں پہلے ہی 30 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں، ہماری معیشت درست سمت میں گامزن ہے اور ہم ایسا ہر گزنہیں چاہیں گے کہ مزید پناہ گزین پاکستان آئیں اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم نے افغانستان کے راستے وسط ایشیائ کے ساتھ رابطوں کے عظیم منصوبے بنائے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ازبکستان سے افغانستان میں مزار شریف کے راستے پاکستان تک ریلوے لائن منصوبے کے سلسلے میں میں حال ہی میں تاشقند گیا تھا جو اس پورے خطے کو آپس میں ملائے گی، افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں وسط ایشیائ کے ساتھ روابط پر مبنی ہمارا معاشی ایجنڈا پس پشت چلا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان عوام کی جانب سے نامزد یا منتخب کردہ کسی بھی حکومت کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہے، افغان عوام جس حکومت کو بھی اپنا نمائندہ سمجھیں گے پاکستان اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ طالبان کے کنٹرول کا انحصار اس کی نوعیت پر ہے، اگر طالبان کے کنٹرول میں سب فریق شامل ہوں تو یہ افغانستاں کے لیے بہترین آپشن ہے، اگر یہ سب کی نمائندہ حکومت ہے لیکن اگر یہ کسی ایک فریق کی حکومت ہے اور سارے افغانستان میں جنگ ہورہی ہو تو ہم سمجھتے ہیں کہ اگر طالبان فوجی قبضے کے نتیجے میں اپنی حکومت قائم کرلیتے ہیں تو اس سے مراد طویل خانہ جنگی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت پہلی ترجیح افغانستان میں جنگ بندی ہونی چاہیے کیونکہ شہری متاثر ہو رہے ہیں، یہ صورت حال اور ابتر ہو جائے گی اگر جنگ جاری رہتی ہے اور بڑے شہروں میں پھیل جاتی ہے، جنگ کے بڑے شہروں میں پھیلنے سے بڑی تعدا میں ہلاکتوں کا امکان ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہر قیمت پر جنگ بندی ہونی چاہیے اور دوحہ مذکرات کے پیش نظر بھی یہی ہے، میں کسی فوجی حل کا حامی نہیں ہوں، ایک سیاستدان کے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہمیشہ سیاسی حل کوہی تلاش کرنا چاہیے، ہمیں امید کرنا چاہیے کہ اس مسئلے کا کوئی سیاسی تصفیہ ہو لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے اگر طالبان اس بات کو مد نظر رکھیں کہ وہ فوجی ذرائع سے پورے افغانستان پر قبضہ نہیں کرسکتے اور افغان حکومت بھی اس بات کا احساس کرے کہ انہیں جنگ بند کرنی ہے اور انہیں بھی سمجھوتے کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان تین ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے امریکہ کی طرف سے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے سے پہلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا اور شاید پاکستان کی حکومت سب سے زیادہ با اثر حکومت تھی، جب پاکستان نے امریکہ کی ایمائ پر طالبان سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو طالبان نے انکار کرد یا تھا، اس وقت بھی طالبان پر پاکستان کا کلی اثر و رسوخ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ افغانستاں کو باہر سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے وہ افغان عوام کے بارے میں حقائق سے آگاہ نہیں ہے، انہوں نے اپنی تاریخ میں کبھی بھی باہر سے کسی کا اختیار قبول نہیں کیا۔ برطانیہ کی افغانوں کے خلاف تین جنگیں، روس کی جنگ جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے اور اب امریکہ کی 20 سالہ ناکام مہم جوئی کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ افغان عوام کو تابع نہیں کیا جاسکتا، انہیں کٹھ پتلی نہیں بنایا جاسکتا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر نوے کی دہائی میں پاکستان میں پالیسی سازی میں میرا کردار ہوتا تو میں تذویراتی گہرائی کے تصور کی حوصلہ افزائی نہ کرتا جو کہ اس وقت پاکستان کی پالیسی تھی، یہ بات خاصی قابل فہم ہے کیونکہ پاکستان کو مشرقی سرحد پراپنے سے سات گنا بڑا بھارت جیسا جارحانہ عزائم رکھنے والے پڑوسی کا سامنا ہے اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو مشرق اور مغرب میں دونوں محاذوں پر جارحیت کی وجہ سے پریشانی کا سامنا تھا۔ اس لیے ہمیشہ یہ کوشش کی گئی کہ افغانستان میں پاکستان کی حامی حکومت برسر اقتدار ہو۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو بھی حکومت اقتدار میں آئے گی اس کو پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا اور پاکستان کو اس ہر حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے جس کو افغان عوام منتخب کریں گے، افغانستان میں حکومتوں کو زیر اثر لانے کی کوششوں کو اگر آپ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کامیابی نہیں ملی، افغان عوام اس بات کو تسلیم نہیں کرتے، اب بھی جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ اگر طالبان کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں تو کیا وہاں پاکستان کی حامی حکومت قائم ہوگی، افغانستان میں جو کوئی بھی حکومت بنے گی اگر ایسا سمجھا گیا کہ یہ حکومت کسی بیرونی اثر کے تابع ہے تو وہ افغانستان میں اپنی ساکھ کھودے گی۔
افغانستان کے لوگ صرف اسی حکومت کی حمایت کریں گے جو ان کی نمائندہ ہو اور جو ان کے مفادات کا ساتھ دے گی۔ اس لیے جب سے میری حکومت اقتدار میں آئی ہے میری پالیسی یہ ہے کہ ہم نے تمام افغان فریقین، پاکستان مخالف سمجھی جانے والے شمالی اتحاد سے بات کی، میں نے حامد کرزئی سے بھی بات کی، میں نے عبداللہ عبداللہ کو دعوت دی، ان سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں ہے، افغانستان میں جو بھی حکومت بنے گی پاکستان اس کے ساتھ کام کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان نسلی بنیادوں پر تقسیم شدہ ملک ہے، پختون آبادی کا 45 فیصد ہیں، ان کے علاوہ تاجک، ہزارہ اور ازبک ہیں.
اس طرح افغانستان میں ایک تقسیم شدہ حکومت ہے جو مختلف نسلی گروپوں کے لوگوں پر مشتمل ہے، اس لیے اگر ایک قسم کی آبادی یا نسلی گروپ دوسروں پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں افغانستان میں ہمیشہ بے چینی رہے گی، ہم وہاں تمام فریقین پر مشتمل حکومت کے حامی ہیں، اگر وہاں بے چینی ہوگی تو پاکستان متاثر ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں افغانستان سے بڑی پختون آبادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2001 کے بعد پاکستان کو اس جنگ میں گھسیٹا گیا جب ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا اور اس جنگ میں حصہ لیا جس کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی اور بعد میں اس نے کوئی اور شکل اختیار کر لی اور ہمیں اپنے قبائلی علاقوں میں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے پر 70 ہزار جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے، پرانی جہادی تنظیمیں سوویت یونین کے خلاف جہاد کیلئے بنائی گئی تھیں وہ سب پاکستان کے خلاف ہو گئیں کیونکہ پاکستان نے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ سوویت یونین کے قبضے کے خلاف جنگ جہاد تھا جبکہ امریکی قبضے کے خلاف جنگ دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کے خلاف ہوگئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خانہ جنگی جیسی صورت حال تھی کیونکہ ہم امریکہ کا ساتھ دے رہے تھے، بنیادی طور پر تمام ہمدردیاں پختونون نہ کہ طالبان کے ساتھ تھیں، قبائلی علاقوں کی آدھی آبادی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئی تھی جو اب بھی اس تباہ کن صورت حال کے اثرات سے نبرد آزما ہے، اس لئے یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکلے اور افغان حکومت تمام فریقین کی نمائندہ ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے یہ بات واضح کردی ہے کہ ہم اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں ایک بار پھر افغانستان کی خانہ جنگی میں گھسیٹ لیا جائے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ہاں کسی کے اڈے قائم ہوں اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہماری سرزمین افغانستان میں حملوں کے لیے استعمال ہو اور جتنا مجھے معلوم ہے کہ 31 تاریخ کے بعد امریکی افغانستان پر فضائی حملوں سمیت ہر طرح کے حملے روک دیں گے۔ اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان اور امریکہ کے سربراہوں کے درمیان ابھی تک کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے.
وزیراعظم نے کہا کہ جلد بازی سے امریکی افغانستان سے واپس گئے ہیں، امریکہ اگر سیاسی حل چاہتا تھا تو عام فہم بات یہ ہے کہ وہ اس وقت سیاسی حل کرتے جب ان کی پوزیشن مضبوط تھی، سیاسی تصفیہ کا وقت جب تھا جس وقت نیٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی افغانستان میں تھے، میرے جیسے لوگ ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، اس کا سیاسی حل ہونا چاہیے.
وزیراعظم نے کہا کہ مجھے امریکہ مخالف کہا گیا اور مجھے طالبان خان تک کہا گیا، مجھ جیسے لوگوں کی طرف سیاسی حل کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، مستحکم پوزیشن سے سیاسی تصفیہ نہ کرنے پر اب وہ پاکستان پر الزام لگارہے ہیں، پہلی بار افغان حکومت امریکہ پر بھی الزام لگا رہی ہے جس انداز سے وہ افغانستان سے واپس گئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ صدر بائیڈن نے مجھے فون نہیں کیا تو یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ کال کریں یا نہ کریں اور وہ اس کو ضروری سمجھتے ہیں یا نہیں اور نہ ہی میں کسی فون کال کا انتظار کر رہا ہوں یہ ان کی مرضی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے اور کرپٹ افغان حکومت ہر طرح کی حکومتی اورانتظامی خرابیوں کا الزام پاکستان پر لگا رہی ہے، 70 ہزار طالبان کو سازو سامان سے لیس تین لاکھ افغان فوج پر سبقت حاصل نہیں ہونی چاہیے جس کو فضائیہ کی مدد بھی حاصل ہے جب تک کہ وہاں کے عوام طالبان کی مدد نہ کر رہے ہوں۔
ایک اور سوال کے جوان میں وزیراعظم نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ امریکہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بھارت اس کا تذویراتی اتحادی ہے اورپاکستان سے مختلف سلوک کرنے کی بھی یہی وجہ ہے اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم چین کے بہت قریب ہیں اور وہ چین کو الگ تھلگ کر نا چاہتے ہیں، جس طرح سے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ سلوک روا رکھا ہے اس میں امریکہ کی وسیع تر تذویراتی پالیسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے، پاکستان کو محض افغانستان میں امریکہ کی طرف سے چھوڑی گئی ابتر صورت حال کو درست کرنے کیلئے اہم سمجھا گیا ہے جب وہ 20 سال تک ایک فوجی حل کی تلاش میں تھے جب کہ ایسا کوئی حل موجود نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ چین ایک سپر پاور کے طور پر ابھر رہا ہے اور پاکستان کے لیے چین کی بہت اہمیت ہے کیونکہ چین نے بہت مشکل وقتوں میں ہماری مدد کی ہے اور ہم چین کے شکرگزار ہیں، یہ کوئی مخصوص معاملہ نہیں ہے، ہم نے سی پیک میں شرکت کے لیے بھی دوسرے ملکوں اور یورپی ممالک کو بھی دعوت دی ہے اور اس میں کوئی بھی ملک شامل ہو سکتا ہے.
اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ احساس اپنی معیشت کا ہے، ہماری 22 کروڑ آبادی ہے اور میرا سب سے اہم ہدف لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کو غربت سے نکالنا ہے اور اس حوالے چین ہمارے لیے بہت مدد گار ہے اور چین نے ایسا کام کیا ہے جو انسانی تاریخ میں پہلے کسی ملک نے نہیں کیا ہے، چین نے تقریباً 70 کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا ہے اور اس ضمن میں چین ہماری بہت مدد کر رہا ہے۔
وزیر اعظم نے افغانستان میں چین کے کردار کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چین افغانستان کا ہمسائیہ ہے اور یقینًا افغانستان کی تعمیر نو میں چین کا کردار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ترکی کے وزیر دفاع کے ساتھ ملاقات کی ہے، ترکی اور طالبان کے لیے بہترین بات یہ ہے کہ وہ مل بیٹھ کر بات چیت کریں تاکہ وہ تبادلہ خیال کرسکیں کہ کابل ائیرپورٹ کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا کیوں ضروری ہے، ہم بھی طالبان سے بات کریں گے تاکہ ہم بھی اس سلسلے میں اپنا کردا ادا کرسکیں۔