صفحہ اول / پاکستان / سپریم کورٹ کا تاریخی و آئینی فیصلہ،ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کالعدم ،قومی اسمبلی بحال

سپریم کورٹ کا تاریخی و آئینی فیصلہ،ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کالعدم ،قومی اسمبلی بحال

اسلام آباد ۔ سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے3اپریل کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا اور قومی اسمبلی ، وفاقی کابینہ کو بحال ، 9اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلاکر تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کرانے کا حکم دیا،مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ کے 5ججوں کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر کی3اپریل کی رولنگ آئین کے منافی ہے جبکہ اسمبلیوں کی تحلیل بھی غیر آئینی ہے،موجودہ فیصلے سے آئین کے آرٹیکل 63کے تحت اب تک کے حکومتی اقدامات غیر آئینی تھے وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دینے کے اہل نہیں ، سپریم کورٹ قومی اسمبلی کو بحال کر رہی ہے، عدالت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیتی ہے ، وزیراعظم کی کابینہ کوبھی بحال کرتے ہیں ،عدالت نے اتوار کے بعد عمران خان اور صدر مملکت کے تمام فیصلے رد کرتے ہوئے 9اپریل ہفتے کی صبح 10 بجے تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کرنے کا حکم دیا۔ عدالتی فیصلے میں اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالتی احکامات پر فوری طور پر عملدرآمد کرایا جائے، قومی اسمبلی کا اجلاس 9اپریل کو بلانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو جلد از جلد نمٹایا جائے ۔ ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم صدر کو ایڈوائس نہیں بھیج سکتے تھے، فیصلے کے تحت کابینہ کے تمام اراکین، اراکین اسمبلی 3 اپریل کی پوزیشن پر بحال کر دیئے گئے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن کسی کو ووٹنگ سے نہیں روکا جائے گا۔ جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ تمام پانچ ججز کا متفقہ فیصلہ ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو بحال کرنے کا حکم دے دیا اور قرار دیا ہے کہ عدم اعتماد برقرار رہے گی، 5ججز کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا چیف جسٹس نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین کے منافی ہے جبکہ اسمبلیوں کی تحلیل بھی غیر آئینی ہے۔ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں ہیں، سپریم کورٹ قومی اسمبلی کو بحال کر رہی ہے، عدالت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیتی ہے ، وزیراعظم کی کابینہ کوبھی بحال کرتے ہیں۔ عدالت نے اتوار کے بعد عمران خان اور صدر مملکت کے تمام فیصلے رد کرتے ہوئے 9اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کرنے کا حکم دیا۔ عدالتی فیصلے میں اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالتی احکامات پر فوری طور پر عملدرآمد کرایا جائے، قومی اسمبلی کا اجلاس 9اپریل کو بلانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو جلد از جلد نمٹایا جائے، ڈپٹی سپیکر کی 3اپریل کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ فیصلے سے آئین کے آرٹیکل 63کے تحت اب تک کے حکومتی اقدامات غیر آئینی تھے، اسپیکر کو ہفتے کی صبح 10 بجے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دیا گیاہے ، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے وزیراعظم کاانتخاب ہو گا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم صدر کو ایڈوائس نہیں بھیج سکتے تھے، فیصلے کے تحت کابینہ کے تمام اراکین، اراکین اسمبلی 3 اپریل کی پوزیشن پر بحال کر دیئے گئے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن کسی کو ووٹنگ سے نہیں روکا جائے گا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد اٹھائے گئے تمام اقدامات غیر آئینی قرار پاگئے ہیں جن میں وزیراعظم کی جانب سے صدرمملکت کو اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے بھیجی گئی ایڈوائس ، صدر کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کا حکم ، صدر کی جانب سے نگران وزیراعظم کے لئے وزیراعظم اوراپوزیشن لیڈر کی جانب سے مانگے گئے ناموں ، سپیکر کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ، ارکان کے لئے مانگ گئے ناموں پر مشتمل خط سمیت دیگر اقدامات بھی کالعدم ہوگئے ہیں ۔ دریں اثناءفیصلہ سنانے سے پہلے چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ الیکشن کے انعقاد کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر آگاہ کریں۔چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بات توہمیں نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ رولنگ غلط ہے، اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ممکن تھا اپوزیشن کچھ کرلیتی، اصل مسئلہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پیدا ہوا، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل کرنا آئین کے منافی ہے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کسی رکن اسمبلی کو عدالتی فیصلے کے بغیر غدار نہیں کہا جاسکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کروں گا، آج اسمبلی دوبارہ بحال ہوگئی تو اس کامینڈیٹ وہ نہیں ہوگا جوپہلےتھی، میرا فوکس نئے انتخابات پر ہے، چار سال سلیکٹڈ کہنے والے آج اسی اسمبلی کا وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، مناسب یہی تھا عمران خان عوام میں جاتے،وہی فیصلہ انہوں نے کیا۔ا س سے قبل سماعت کے آغاز پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں کل رات بہت الارمنگ صورتحال ہوگئی، گزشتہ رات حمزہ شہبازکو نجی ہوٹل میں وزیراعلی بنا دیاگیا، آج سابق گورنرپنجاب حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینے والے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان پروسیڈنگز میں پنجاب اسمبلی کو ٹچ نہیں کر رہے۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ آئین 10، 12 صفحوں کی کتاب ہے جسے کسی بھی وقت پھاڑ سکتاہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تقریرناکریں، ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ کل ٹی وی پربھی دکھایا گیاکہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دیں۔جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیا کر رہے ہیں پنجاب میں آپ لوگ؟ ،مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران اسمبلی کہاں جائیں جب اسمبلی کو تالے لگا د یئے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، خود فریقین آپس میں بیٹھ کرمعاملہ حل کریں، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ صدر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیاموجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں، اگرپارلیمنٹ میں کوئی غیرآئینی حرکت ہو رہی ہے تو کیا اس کا کوئی حل نہیں؟۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگرپارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیرآئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی دادرسی نہیں ہو سکتی؟ جس پر علی طفر نے بتایا کہ برطانیہ کی ہاس آف کامن میں ایک ممبرکو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججزکے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کی چاردیواری کے اندرکا معاملہ ہے؟ کسی اقدام کے نتائج کا اثرپارلیمنٹ سے باہر ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا انتخاب یا تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے؟۔صدر مملکت کے وکیل نے کہا کہ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتاہے، آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ججز میں تفریق ہو، وہ ایک دوسرےکو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت کو خود معاملہ نمٹانا ہے، وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے، اس کو اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹرمنتخب کرنا ہے، وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی توڑنے کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا، جس پر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، عدالت یہ کہے کہ اب معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے، عدالت کو قرار دینا چاہیے کہ غیرقانونی حرکت ہوئی بھی ہے تو فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے، اگر پارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہوگا؟ جس پر صدر پاکستان کے وکیل نے کہا کہ قانون سازی نہ ہو تو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ بااختیار ہیں، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے آئین سے منافی قرار دیا تھا، جونیجوکیس میں عدالت نے کہا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے اس لیےفیصلہ عوام ہی کرےگی۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتمادکے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مانتا ہوں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے، اگرکوئی بھی ناکام ہو رہا ہو تو کیا ایسے رولنگ لاکر نئے الیکشن کرا لے؟ انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انتخابات کی کال دےکر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگارچھوڑ دیاجاتا ہے۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ جہاں تک صدرکی بات ہے وہ وزیراعظم کی ایڈوائس پرعمل کرتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی اب بھی سب سے زیادہ اکثریت رکھنے والی جماعت ہے، مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیاجائے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیس کے سیاسی محرکات میں نہیں جانا چاہتا، عدالت کو سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، بس آئین پربات کرنی چاہیے۔عمران خان کے وکیل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جب وزیراعظم کےخلاف عدم اعتمادہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنےکا راستہ ہموار کیا، ہم نےکل بھی کہا تھاکہ اس اقدام کی وجہ اور نیت کو دیکھیں گے، اسپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95کے برخلاف ہے، دیکھناہے یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینےکا گریٹر ڈیزائن تو نہیں، یہ سب صورت حال قومی مفاد میں نہیں ہے۔ امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے احتراز برتتی رہی ہے، چوہدری فضل الہی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا اور تشدد کیا گیا تھا، عدالت نے اس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی، ایوان کی کارروائی میں مداخلت عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمنٹ کو اپنا گند خود صاف کرنےکا کہے، یہ ایوان کی اندرونی کارروائی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سےکہا گیا کہ لیوگرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آسکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آسکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیاکہیں گے؟۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسپیکر کو معلوم ہو بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو قانون سے ہٹ کربھی ملک کو بچائےگا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ کا استحقاق اور اس کی حدودکا تعین عدالت کوکرنا ہے، جس پر امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جوبہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمنٹ اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنےکی پابند نہیں ہے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرےگی، عدالت جائزہ لےگی کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے، کیا ڈپٹی اسپیکرکے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھاجس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟۔وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی پر فرد واحد اثر انداز نہیں ہو سکتا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ڈپٹی اسپیکرکے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکرکے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھاجس پر رولنگ دی؟ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکرکو 28 مارچ کو ووٹنگ پرکوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کےدن رولنگ آئی۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نےکہا اگربدنیت ہوتا تو اپنی ہی حکومت تحلیل ناکرتا، وزیراعظم نے کہا معلوم ہے نئے انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے، وزیراعظم نےکہا وہ ان کے خلاف عوام میں جا رہے ہیں جنہوں نےکئی سال حکومتیں کیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کو اپناتا ہوں، عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا؟ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جاسکتا ہے، اتنے دنوں سے آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ہر سوال کا جواب دوں گا، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہم بھی آپ کو سننے کے لیے بیتاب ہیں۔وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 95کی حد اور اس میں دیے گئے مقررہ وقت سے آگاہ ہوں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا اسپیکرکا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ ۔نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جاسکتا ہے، اگر اسپیکرپوائنٹ آف آرڈر مستردکر دیتاکیاعدالت تب بھی مداخلت کرتی؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا زیر التوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈرپر مستردہو سکتی ہے؟ جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پوائنٹ آف آرڈرپر تحریک مسترد ہونےکا واقعہ کبھی ہوا نہیں، پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک مستردکرنے کا اسپیکرکا اختیار ضرور ہے ، نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے، سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا تحریک پیش ہونے کے لیے لیو گرانٹ کاکوئی آرڈر ہوتا ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونےکی منظوری کا یہ مطلب نہیں کہ مستردنہیں ہو سکتی، عدالت بھی درخواستیں سماعت کے لیے منظورکرکے بعد میں خارج کرتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں۔نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی اجلاس شروع ہوتے ہی وزیر قانون فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہو جاتی توپوائنٹ آف آرڈر نہیں لیاجا سکتا تھا۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ کیا فوادچوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر کا ٹرانسکرپٹ ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر کا ٹرانسکرپٹ بھی پیش کروں گا، اسپیکرکو اختیار ہے کہ ایجنڈے میں جو چاہے شامل کر لے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد شامل ہونے کا مطلب ووٹنگ کے لیے پیش ہونا نہیں؟ تحریک عدم اعتمادکے علاوہ پارلیمان کی کسی بھی دوسری کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں، کیا اسمبلی رولز کا سہارا لے کر آئینی عمل کو روکا جاسکتا ہے؟ کیا اسپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر اسپیکرکے خلاف کوئی کاروائی ہوسکتی ہے؟۔ نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ آئین بہت سے معاملات پر خاموش ہے، جہاں آئین خاموش ہوتا ہیں وہاں رولز بنائے جاتے ہیں۔دوران سماعت اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے مندرجات عدالت کے سامنے پیش کر د یئے ۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمانی کمیٹی کے منٹس تو ہیں لیکن اس میں شرکاکون کون تھے؟ قومی سلامتی کمیٹی میں بریفنگ کس نے دی؟ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے پارلیمانی کمیٹی میں بریفنگ دی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ وزیرخارجہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں موجود تھے یا نہیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں نہیں تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملک کا وزیر خارجہ ہے اور اہم اجلاس میں موجود نہیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ اجلاس کے منٹس میں معید یوسف کا نام بھی نہیں ہے۔نعیم بخاری نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اسمبلی میں وقفہ سوالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہاکوئی سوال نہیں پوچھنے، صرف ووٹنگ کرائیں، اس شورشرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس د یئے کہ ریکارڈکے مطابق قومی سلامتی اجلاس میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کوبریفنگ دینے والوں کےنام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیر خارجہ کوپیغام آیا،کیا انہیں اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ 31مارچ کو نوٹس ہوا، اسی دن اجلاس بھی بلایا گیا۔نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں کیا ہوا، کون تھا،کون نہیں، یہ اٹارنی جنرل کو بتانا ہے، 7 مارچ کو ہمارے سفیرکو ایک اجلاس کے لیے بلایا جاتا ہے، ہمارے سفیرکو بتایا جاتا ہے عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کیا جائے گا۔جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ 7 مارچ کو سفیرکوکہاگیا، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر لیوگرانٹ ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے 31 مارچ کے اجلاس میں 57 ممبران اسمبلی موجود تھے، ممبران اسمبلی کو سیاہ وسفید صورتحال کا معلوم ہو چکا تھا، آپ کے وزیر نے 3 تاریخ کو پوائنٹ آف آرڈر دیا، اگر خیال کیا جائے پارلیمانی کمیٹی سے متعلق اپوزیشن کو ان کے ساتھیوں نے بتا دیا تھا، کیا آپ کو اپوزیشن کی طرف سےجواب دیےجانےکا وقت نہیں دینا چاہیے تھا؟ پوائنٹ آف آرڈرپر رولنگ کی بجائےاپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ ۔نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈرپربحث نہیں ہوتی، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا 3 منٹ کی تھی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فواد چوہدری نے اسپیکرکو تحریک عدم اعتماد آرٹیکل5 سے متصادم ہونے پر رولنگ مانگی، یہ بھی ہو سکتا تھا اراکین کہتے تحریک عدم اعتماد آئین کے خلاف ہے اس لیے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، اسپیکر نے رولنگ کے بعد ووٹنگ کیوں نہیں کرائی؟ رولنگ میں تحریک عدم اعتماد مستردکرنا شاید اسپیکر کا اختیار نہیں تھا، یہ بھی ممکن تھاکچھ ارکان اسپیکرکی رولنگ سے مطمئن ہوتے کچھ نہ ہوتے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا ہے۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکرکو لکھاہوا ملا کہ یہ پڑھ دو، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے آخر میں اسپیکر اسد قیصرکا نام بھی لیا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیاعوامی نمائندوں کی منشاکےخلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہرنہیں آتا؟۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وفاقی وزیرکا پوائنٹ آف آرڈرپر سوال ہو سکتاہے، اسپیکر پوائنٹ آف آرڈرپر رولنگ بھی دے سکتا ہے، یہاں تک تو رولنگ کی بات درست ہے، رولنگ کایہ حصہ کہ تحریک عدم اعتمادکو مستردکرنا خلاف آئین ہے، آئین کا حکم ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا لازم ہے۔وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمان کے اندرجو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ میں اٹھائے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے؟ ۔نعیم بخاری نے کہا کہ حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا، ہمارا موقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، ایوان کے پاس رولنگ پاس کرنےکا اختیار تھا انہوں نے نہیں کی، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کو اسپیکرکے سامنے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ آپ کے مطابق اراکین کو ڈپٹی اسپیکر کے خلاف اسپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا؟ ۔چیف جسٹس نے کہا کہ آسمان اس وقت گرا جب اسمبلی تحلیل کر دی گئی جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس دادرسی کا طریقہ کارکیا تھا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ارکان نئی عدم اعتماد لاسکتے تھے؟۔نعیم بخاری نے کہا کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کی توثیق کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رولز کے مطابق پوائنٹ آف آرڈرپر دوسری طرف کوبات کرنےکا موقع دیا جا سکتا ہے، آپشن کے باوجود دوسری طرف کو سننے کا موقع نہیں دیا گیا، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت اسمبلی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جس رولنگ کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل ہوئی اسے چھوڑ کر باقی چیزوں کاجائزہ کیسے لیاجا سکتاہے؟ جبکہ جسٹس منیب نے کہا کہ رول 28 کے تحت اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ کیا لفظ موجودہے؟۔وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ آرٹیکل 69 میں اسپیکر کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر کا ذکر ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ایک آفیسر آف کورٹ کے طور پر نہیں سمجھتے کہ آرٹیکل95 مکمل ضابطہ نہیں؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کے آرٹیکل95 کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس حدتک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرے۔اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس وقت کسی معاملے پرکوئی ڈیڈلاک نہیں کیونکہ کیس زیرسماعت ہے، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر لیوگرانٹ ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے؟ خالد جاوید خان نے بتایا کہ ہاﺅس لیوگرانٹ کرتا ہے۔ خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوئی، کھلی عدالت میں قومی سلامتی کمیٹی کے مندرجات پر دلائل نہیں دے سکتا، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس معاملات پربریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے کے لیے تیار ہوں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب،کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پوری بات تو سن لیں، ہم چاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کسی کی ملکی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیربھی فیصلہ کر سکتی ہے، عدم اعتماد کے لیے 172 ارکان ہونا چاہئیں، 28 مارچ کو جب لیوگرانٹ ہوئی 161 ارکان ایوان میں موجود تھے، 28 مارچ کو ہی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ختم ہو چکی تھی، آرٹیکل 17 کسی کوبھی کسی جماعت میں شمولیت، انتخابات لڑنے کا حق دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ارکان اسمبلی کی طرح اسمبلی کی موجودگی تک عہدے پر رہتا ہے، وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے والےآخری شخص ہوتے اگر یہ ناگزیر نا ہو گیا ہوتا، وزیراعظم سب سے بڑےاسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنےکا اختیار ان کے پاس ہے، اسمبلی توڑنے کے لیے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں ہوتیں، صدرسفارش پر فیصلہ ناکریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی خود تحلیل ہو جاتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صرف تحریک عدم اعتماد پر دلائل دوں گا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، کسی دوسرے ملک میں ممبران اسمبلی کے ووٹ ضائع کرنے میں عدالتیں مداخلت نہیں کرتیں۔چیف جسٹس نے کہا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 95 کے اندر حق رولز سے مشروط ہے؟ جس پر خالد جاوید خان نے کہا کہ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی توڑنے کے وزیراعظم کے اختیارکا آپشن ختم کر دیا گیا ہے لیکن ہمارے آئین میں وزیراعظم کا اسمبلی توڑنے کے اختیارکا آپشن موجودہے۔بیرسٹر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں عدالت کی مداخلت میں فائر وال نہیں، پر ایک حد ہونی چاہیے، نہیں سمجھتا پارلیمانی کارروائی کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے، پارلیمانی کارروائی کاکس حد تک جائزہ لیاجا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرےگی، اسپیکرکم ووٹ لینے والےکے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کرسکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اسپیکر ایوان کا نگراں ہے، صرف اپنی ذاتی تسکین کے لیے نہیں بیٹھتا، اسپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے اور باقی ارکان کو گڈ بائے کہہ دے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تحریک پیش کرنےکی منظوری کے لیے 20 فیصد یعنی 68 ارکان کا ہوناضروری نہیں، اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہو گا؟ ۔جسٹس منیب نے کہا کہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنےکی منظوری دیں توکیا وزیراعظم فارغ ہو جائےگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کے لیے86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے۔تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آجائیں گے، تحریک پیش کرنےاور ووٹنگ میں 3 سے 7 دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، سات دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے۔جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ 20 فیصد ممبران نے جب تحریک پیش کردی تو بحث کرانا چاہیے تھی، وزیراعظم کو سب پتا ہوتا ہے، جاتے ممبران سے پوچھتے وہ کیا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پر لیوگرانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟۔ اٹارنی جنرل خالد جاویدکا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں، تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہوسکتی تھی۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ تحریک پیش ہونے کے لیے بھی 172اراکین پورے ہونے چاہئیں، تحریک پیش کرنےکیلئے 68 ارکان کی موجودگی چاہیے تھی، اس دن 168 آئے، 100 نے مخالفت کی، ڈپٹی اسپیکر اس طرح تحریک پیش کرنےکی اجازت نہیں دے سکتے تھے، آئین میں کہیں نہیں لکھاکہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مستردہوگی، تحریک پیش کرنےکی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہاس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے، ایک بات توہمیں نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ رولنگ غلط ہے، بتائیں اگلا مرحلہ کیا ہوگا، اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ممکن تھا اپوزیشن کچھ کرلیتی، اصل مسئلہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پیدا ہوا، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل کرنا آئین کے منافی ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں صرف تب تحلیل کی جاسکتی تھیں جب تحریک عدم اعتماد خارج ہوتی، ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والی گھڑی کی ٹک ٹک ختم ہوئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں انتخابات ہی واحد حل ہے،کوئی اور حل کیوں نہیں تھا ؟ چاہتے ہیں پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرتی رہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی اپوزیشن لیڈر وزیراعظم نہیں بنتا، کئی ممالک میں بنتے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر جب وزیراعظم بنے توکام نہیں چلتا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کسی رکن اسمبلی کو عدالتی فیصلے کے بغیر غدار نہیں کہا جاسکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کروں گا، آج اسمبلی دوبارہ بحال ہوگئی تو اس کامینڈیٹ وہ نہیں ہوگا جوپہلے تھی، میرا فوکس نئے انتخابات پر ہے، چار سال سلیکٹڈ کہنے والے آج اسی اسمبلی کا وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، مناسب یہی تھا عمران خان عوام میں جاتے،وہی فیصلہ انہوں نے کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں استحکام چاہیے، آپ کہتے ہیں اسمبلی بحال ہوئی تو سڑکوں پر لڑائیاں ہوں گی؟ آج ہی کیس کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، قومی مفاد اور عملی ممکنات دیکھ کرہی آگے چلیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدالت کو حالات و نتائج دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا،عدالت کو آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت کو نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں، نتائج میں نہیں جائیں گے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر موجود ہیں، اپوزیشن لیڈربھی نہیں چاہتے ہوں گےکہ ملک کسی اور کے مینڈیٹ پر چلے، 2018 کی اسمبلی سےدس 20 لوگ ادھر ادھر ہوکر جو حکومت بنائیں گے وہ سب کو معلوم ہے کیسی ہوگی۔چیف جسٹس نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے لیے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں کوئی وکیل نہیں ،عام انسان ہوں، چند حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ڈپٹی اسپیکرکا اقدام غیر آئینی ہے تو وزیراعظم کا صدر کی مدد سے کیے گئے اقدام کی بھی کوئی وقعت نہیں، اگرڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے تو کوئی اسمبلی ایسے تحلیل نہیں ہوئی، ججز اور عدلیہ کی بہت عزت کرتاہوں اور آپ پر فخر ہے۔صدر مسلم لیگ ن نے کہا کہ غلطیوں پر سزائیں نہ ہوئیں تو غلط کو کوئی نہیں روک سکتا، اسپیکرکا اقدام غلط ہے تو پارلیمنٹ کو بحال کیا جائے، ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر قانونی اور غیرآئینی تھا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی اور اس دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ اسپیکر کا اقدام غلط تھا، اگر گذشتہ حکومت اتحادیوں کے ساتھ چل سکتی تھی تو اب کیوں نہیں؟ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، حکومت کے اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ جوائن کیا، گارنٹی دیتا ہوں کہ آئین پاکستان کا تحفظ کریں گے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2013 میں آپ کی جماعت کے پاس کتنی سیٹیں تھیں ؟ شہبازشریف نے جواب دیا کہ 2013 میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کےتحت موجودہ کارروائی کر رہے ہیں، یہ مفاد عامہ کا کیس ہے، رولنگ کو ختم کرکے دیکھیں گے آگے کیسے چلنا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں فریش الیکشن چاہتی تھیں،فریش الیکشن کا موقع ہے، آب کیوں نہیں چاہتے؟۔شہبازشریف نے جواب دیا کہ الیکشن چوری ہوا ہے،آئین توڑا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو آئین ٹوٹا وہ ہم بحال کرلیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایوان نیا لیڈر آف ہاﺅس منتخب کرلیتا ہے تو ملک کو استحکام کی طرف لے جائیں گے، انتخابی اصلاحات لائیں گے جن سےفری اینڈ فیئر الیکشن ہوں گے، عام آدمی تباہ ہوگیا، اس کے لیے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان کے جواب الجواب دلائل میں کہا کہ 2002 سے 2022 تک ہرحکومت اتحادیوں کی مدد سے بنی، 2002 سے کسی جماعت نے اکیلے حکومت نہیں بنائی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پہلے نئے انتخابات چاہتے تھے،ا ب قلابازی کھا گئے، ہمیشہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے آج کیوں نہیں مان رہے؟۔مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سرپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کرچکے ہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت سیاسی تقریر پر نہ جائے، آج متحدہ اپوزیشن کے پاس ارکان کی تعداد 177 ہے، عدالت کو دیکھنا ہے کہ اسپیکر نے کیا کیا؟ عدالت کہہ چکی کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے، اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی، ڈالرمہنگا اور روپے کی قدرکم ہوگئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک چھت کے نیچے آپ ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، آپ کا دل بڑا ہوگا لیکن انہوں نے تو آپ سے ہاتھ تک نہیں ملایا، سوشل میڈیا پر تنقیدکی جا رہی ہے، ہم صرف عبادت کے طور پرکام کر رہے ہیں، باہر روسٹرم پر میڈیا کے سامنےجو گفتگو ہوتی ہے اس سے احتیاط کرنی چاہیے، سیاست میں بہت تلخی آگئی ہے، محض جھوٹ بولنا ملعون بنا دیتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سچ بولنا شروع کردیں تو قوم کہاں سے کہاں چلی جائے، ہماری قوم قیادت کو ترس رہی ہے، آپ کے مقابلے باہر ہوتے ہیں،عدالت کی نظرمیں سب برابر ہیں، ہم سیاسی فیصلے نہیں کرسکتے، احتیاط کا فیصلہ کرسکتے ہیں، ہم پر اتنی تنقید ہوتی ہے،سوشل میڈیا ہم پر مہربان ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو روسٹرم پر بلایا تو انہوں نے کہا کہ بدنیتی سے حکومت نے یہ فیصلہ لیا، ڈپٹی اسپیکرکی غیر قانونی رولنگ نے وزیراعظم کی جمہوریت پر سوال اٹھایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کاشکریہ کہ آپ نےبہت زبردست بات کی ، آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، معلوم ہے کہ بلاول بھٹو کی 3 نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اپنے لیے حکومت بنانا ہماری ترجیح نہیں ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی ہے، حکومت بناکر انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، انتخابی اصلاحات پر بل تیار ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے تمام دلائل سننے کے بعد ازخود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فیصلہ جمعرات کی شام ساڑھے 7 بجے سنا ئے جانے کااعلان کیا۔گزشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بظاہر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی تھی لیکن ووٹنگ والے دن رولنگ آگئی، یہ رولنگ بظاہر الزامات اور مفروضوں پر مبنی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔چیف جسٹس نے کہا تھا کہ موجودہ کیس میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جب آئین کی خلاف ورزی ہو، عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کر سکتی ہے۔ بشکریہ آئی این پی

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے