تحریر. مظہر عباس
کسی بھی مسئلے کا حل فوجی نہیں سیاسی ہی ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ معاملات مذاکرات سے ہی حل ہوتے ہیں مگر ہمیں جنگ اور دہشت گردی میں فرق واضح کرنا پڑے گا۔ افغان طالبان نے دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے خلاف 20سالہ جنگ لڑی اور پھر اس کا اختتام ایک مذاکراتی عمل کے بعد ہوا جس میں دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ تاہم جس تیزی سے وہاں تبدیلی آئی اس کی توقع شاید خود طالبان کو بھی نہ تھی۔ یہاں معاملات ذرا مختلف ہیں۔ پاکستان پچھلے 20سال سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے جس میں فوجی و سیاسی قیادت کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری نشانہ بنے جن سے وزیراعظم عمران خان آج مذاکرات کی بات کر رہے ہیں، ان سے ماضی میں بھی یہ عمل ہوا تھا مگر ناکام رہا جس کے بعد فوجی آپریشن کیا گیا۔ کئی علاقے پاکستان کے لئے نوگو ایریاز بن چکے تھے اور ریاست کے اندر ریاست قائم ہو چکی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ انٹرویو نے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا آغاز ہوا ہے تو وہ افغانستان میں کیوں؟ دوئم کن شرائط پر کیونکہ یہ یکطرفہ نہیں ہوئے جیسا کہ ماضی میں بات چیت کے دوران باتیں سامنے آئیں۔ سوئم کس گروپ سے بات ہو رہی ہے؟
ہماری ریاستی کنفیوژن اور کمزوریوں کی وجہ سے ہر طرف آپ کو ایسی آوازیں ملیں گی، خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں۔ بہتر ہوتا کے وزیراعظم یا ان کی حکومت اس حوالے سے واضح پالیسی بیان دیتی۔ پارلیمنٹ میں بحث ہوتی تاکہ مذاکراتی عمل کے خدوخال پتہ چلتے۔ 2014کے واقعات کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا اور پورے ملک میں ایپکس کمیٹیاں بنائی گئی تھیں ان کا بھی یہی مقصد تھا۔ اگر بات سب سے خفیہ رکھی جائے اور اچانک ایک دن وزیراعظم غیرملکی ٹی وی پر انکشاف کریں تو سوالات تو اٹھیں گے۔ بدقسمتی سے 1980کے بعد سے ہم نے اپنے ملک کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا ہے جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔ اس وقت بھی ہمارے شہروں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ مجھے تو آج بھی 1987کے ہری بازار صدر کے وہ دھماکے نہیں بھولے جن میں 150کے قریب لوگ شہید اور 300کے قریب زخمی ہوئے تھے۔
روس گیا تو امریکہ بھی چلا گیا اور ہم 50لاکھ افغان پناہ گزینوں کے علاوہ ہزاروں ان مجاہدین کا بھی بوجھ اٹھاتے رہے جن کے اپنے ممالک ان کو لینے کو تیار نہیں تھے۔ 1995میں ایک بار سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو نے مصر کے 200کے قریب افراد کو مصر کی حکومت کے حوالے کیا تو کچھ عرصے بعد اسلام آباد میں مصر کے سفارت خانے کو خود کش کار بم دھماکے سے تباہ کر دیا گیا۔ انہی برسوں میں کئی ایسے واقعات ہوئے جس سے واضح طور پر ریاست کی کمزوریاں نظر آتی ہیں اور یہ سب 9/11سے پہلے ہوا۔ مثلاً رمزی یوسف اور ایمل کانسی کا یہاں سے امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کےمشترکہ آپریشن میں پکڑنے جانا۔ کراچی میں شارع فیصل پر نرسری کے پاس دو امریکی انڈر کور ایجنٹس کا مارا جانا اور ایسے ان گنت واقعات۔ ہم صرف کراچی ہی نہیں بلوچستان اور سابقہ فاٹا خاص طور پر شمالی وزیرستان میں ہونےوالے واقعات اور وہاں ایسے گروپس سے بھی یا تو غافل رہے یا خاموش۔
پہلی بار 14اگست 2001کو پرویز مشرف کی حکومت نے تمام فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی لگا دی اور اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد 9/11ہو گیا۔ مشرف نے ISIکے سابق سربراہ جرنل محمود کو دو علماء کرام مفتی نظام الدین شامزی اور مولانا مفتی جمیل کے ساتھ ملا محمد عمر کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اسامہ بن لادن کو افغانستان سے کسی اور ملک منتقل کر دیں مگر یہ ہو نہ سکا اور اکتوبر 2001میں افغانستان پر امریکہ اس کے اتحادیوں نے حملہ کر دیا۔ پاکستان کی پالیسی میں ماضی کی جنگ کے مقابلے میں اس جنگ میں یہ فرق آیا کہ روس کے خلاف ہم نے امریکہ کے ساتھ جہاد افغانستان کیا اور جنگ میں ان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے لوگ گرفتار کرکے ان کے حوالے کیے۔ جنوری 2002میں ہم نے تمام جہادی تنظیموں پر بھی پابندی لگا دی مگر اسی سال پاکستان میں دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ خود مشرف پر دو بار حملے کی کوشش ہوئی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز خود کش دھماکے میں بال بال بچے اور 2007میں بےنظیر بھٹو شہید کر دی گئیں، یہ ہی نہیں 2013کے الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی، پی پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ کو نشانہ بنایا گیا اور ان کے لئے الیکشن لڑنا ناممکن بنا دیا گیا۔ ان جماعتوں کو سوات اور مالا کنڈ میں آپریشن کی حمایت اورلبرل نظریات کی وجہ سے ٹارگٹ کیا گیا۔
2013میں پہلی بار فوجی قیادت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا تو کچھ مذہبی جماعتوں کے علاوہ عمران خان نے اس کی مخالفت کی۔ جب 16دسمبر 2014کو آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ ہوا تو عمران خان سمیت ساری جماعتیں ایک صفحہ پر تھیں مگر اس سے پہلے مذاکرات ہوئے مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب ہم نے پھر ایک مذاکراتی عمل کا آغاز کیا ہے جس کو وزیراعظم کی تائید حاصل ہے۔ ظاہر ہےاس میں کوئی سیاسی لوگ شامل نہیں نہ ہی کوئی وزیر۔ اُن کے نتائج کا انتظار رہے گا مگر عام معافی یا مشروط معافی صرف ایک گروپ کے لئے کیوں جو گروپ بھی ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں آنا چاہے۔ انتہا پسندی کو ترک کرے اس کی مدد کرنی چاہئےمگر احتیاط کے ساتھ۔
محترم وزیراعظم، آپ کی ایک اتحادی ایم کیو ایم (پاکستان) بھی ہے۔ 22اگست 2016کے بعد سے انہوں نے اپنا رشتہ لندن گروپ سے توڑ لیا اور قومی دھارے میں آ گئے۔ کیا ان کو معاف کیا گیا ہے شاید نہیں آج بھی اُن پر شک کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ یہی حال بلوچستان اور اندرون سندھ کے گروہوں کا ہے۔ خدارا، گڈ اور بیڈ دہشت گرد کی اصطلاح سے باہر نکلیں۔ یا تو ریاست سب کے لئے مشروط عام معافی کا اعلان کرے یا اپنی رِٹ قائم کرے تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ غیرریاستی عناصر ریاست سے زیادہ مضبوط ہیں۔ سب سے بات کریں اور اگر جائز مطالبات ہیں تو مانیں بھی مگر شہدا کے لواحقین سے ضرور معلوم کریں اور ریاستی کنفیوژن سے باہر آئیں۔بشکریہ جنگ
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام