صفحہ اول / پاکستان / پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس پاکستان کی بقا کا کیس ہے،اکبر ایس بابر

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس پاکستان کی بقا کا کیس ہے،اکبر ایس بابر

اسلام آباد ۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ فریقین کو دینے کی ہدایت کر دی۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پبلک نہ کرنے کی استدعا کی ہے۔تحریک انصاف کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ یہ رپورٹ صرف فریقین کے لیے ہے اور انہیں ہی دی جائے۔

ٰٰٰہم اس کا جائزہ لے کر جواب جمع کروائے گے اس رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔ اس پر کمیشن نے کہا کہ یہ ان کیمرا کارروائی تو نہیں ہے۔ اوپن کورٹ کی کارروائی کو کیسے خفیہ رکھا جا سکتا ہے؟تحریک انصاف کے وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ دیگر جماعتوں کے اکاونٹس کی سکروٹنی کا عمل مکمل ہونے دیں وہ رپورٹس بھی حتمی مرحلے میں ہیں، اس کے بعد سب کو اکٹھا دیکھیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سب رپورٹس کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ کی کاپیاں تمام فریقین کو دے دیتے ہیں۔شاہ خاور نے کمیشن سے ایک بار پھر استدعا کی کہ کمیشن آرڈر پاس کرے کہ فریقین اسے پبلک نہ کریں، ہمیں جانچ پڑتال کا موقع دیں۔تاہم چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ہم اس قسم کا آرڈر پاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔سکندر سلطان راجہ کا کہنا تھا کہ کمیشن میں یہ اتفاق ہے کہ رپورٹ کو پبلک کرنے کی ممانعت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

دوران سماعت اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ جوابدہ کے کہنے پر سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ خفیہ نہیں رکھی جا سکتی۔ سب چیزیں اوپن ہوتی ہیں۔سکندر سلطان راجہ کا کہنا تھا کہ اوپن کورٹ میں ہم پابندی نہیں لگا سکتے، کمیشن میں یہ اتفاق ہے کہ رپورٹ کو پبلک کرنے کی ممانعت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ تمام فریقین کو فراہم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل کی درخواست پر سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کر دی۔سماعت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس ملک کی بقا کا معاملہ ہے، جلدی فیصلہ نہ سنایا گیا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کہ اس کیس کو مینج کیا جا رہا ہے۔اکبر ایس بابر نے 10 اکتوبر 2019 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں واضح کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے کیس کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی سے درخواست کی گئی کہ اس کو جو مواد فراہم کیا گیا ہے وہ ہمیں دکھایا جائے، تو اس پر کمیٹی کی جانب سے جواب دیا گیا۔

2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ظابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے اور مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ملین ڈالرز ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے بینک اکاونٹس میں منتقل کیے گئے۔اس درخواست میں انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس کو بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔

سماعت کے بعد اکبر ایس بابر کے وکیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سکروٹنی کمیٹی نے رپورٹ آج الیکشن کمیشن میں دائر کی ہے آج وہ پارٹیز کو فراہم کرنی تھیں تو ہمیں ہماری یہ کاپی دے دی گئی ہے یہ تقریباً9500صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ہے اس کے ساتھ سپورٹنگ دستاویزات ہیں ابھی ہم نے اس کا مطالعہ نہیں کیا اس لئے ہم ابھی یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ اس میں کیا ہے جو آج کی کارروائی تھی۔

اس میں اہم بات یہ تھی کہ ایک دفع پھر پارٹی کے وکلا ءنے اسرار کیا کہ تمامعاملہ جو خفیہ اکاونٹ کا ہے اس کو سیکریٹ یا خفیہ رکھا جائے تب تک جب تک یہ معاملہ کمیشن خوددیکھ نہیں لیتا ہماری درخواست شروع سے یہ رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس جتنے بھی کیسز آتے ہیں جتنے بھی معاملات آتے ہیں ڈاکومنٹس آتے ہیں وہ پلک ڈاکومنٹس ہوتے ہیں۔

14اپریل 2021ءاس سے پہلے کا بھی آرڈر ہے جس میں الیکشن کمیشن کا فل بینچ الیکشن کمیشن یہ فیصلہ سنا چکا ہے کہ تمام دستاویزات وہ پبلک ویو میں ہیں اور جب سکروٹنی کمیشن کے پاس آئے گی توان کو پبلک کیا جائےگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کےسامنے ایک شفاف طریقے سے اس کی ایگزامینیشن شروع ہوگیآپ کو یہ بھی یاد ہے کہ جب سکروٹنی کمیٹی کےسامنے پروزل ہورہا تھا تو ہم نے اپنے پروزل کی خود ایک رپورٹ بنا کر اپنے فائنڈنگ کی جمع کرائی تھی تو اہم چیز یہ ہے کہ ہمارے لیے دیکھنا ہم نے جو فیکٹ فائندنگ جمع کرائی تھی پروزل رپورٹ کو اس کو اس رپورٹ میں کہاں تک اٹینڈ کیا گیا ہے۔

اب تاریخ 18جنوری 2022ءمقرر کی گئی ہے اس تاریخ پر یہ سکروٹنی کا معاملہ بھی آگے بڑھے گااورپی ٹی آئی نے ایک اور درخواست کلب کر نے کی دی ہے کہ باقی دیگر پارٹی کی بھی جو سکروٹنی ہورہی ہے اسے کلب کر دیں انشااللہ اگلی تاریخ پر اس پر بھی ہم بحث کریں گے اور پھر جو بھی فیصلہ آئےگا آپ کی خدمت میں پیش کر دیں گے ۔

اکبر ایس بابر نے میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ آج ایک بڑا اہم دن ہے فارن فنڈنگ کیس جو سات سال سے چل رہاہے آج تحریک انصاف نے ایک نئی درخواست ڈالی ہے کہ جو کیس ان کی جانب سے دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف چل رہے ہیں جو انہوں نے 2017ءمیں داخل کئے تھے میرا کیس تو 2014ءچل رہے ان تمام کی سکروٹنی مکمل کرکے ایک ساتھ کارروائی کی جائے اور فیصلہ دیا جائے تو یہ ایک بڑا مضحکہ خیز مطالبہ ہے ہم نے زندگی میں اجتماعی نکاح تو سنے تھے لیکن اجتماعی عدالتی فیصلوں کا آج پہلی دفع سن رہے ہیں یعنی یہ ایسا ہی ہے کہ اگر ایک قاتل پکڑا جائے اور میں یہ پی ٹی آئی کے حوالے سے نہیں کہہ رہا صرف مثال کے طور پر کہ وہ ایک کہے کہ جب تک باقی 9بھی پکڑے جائیں ہمارا فیصلہ نہ سنائیں ۔بہرحال اس درخواست کی بھی 18جنوری کو سماعت ہوگی ۔

انہوں نے مزید کہاکہ میں آپ کے سامنے سکروٹنی کمیٹی کا ایک پس منظر رکھنا چاہوں گا ایک ریکارڈ کے طور پر یہ سکروٹنی کمیٹی مارچ 2018ءمیں قائم کی گئی کیوں قائم کی گئی کیونکہ قائم کی گئی کیونکہ الیکشن کمیشن نے 2014ءسے کے 2018 تک پاکستان تحریک انصاف کو 21 آرڈر دئیے پروڈکشن کے یہ ڈاکومنٹ آپ مہیا کریں انہوں نے وہ ڈاکومنٹس مہیا نہیں کئے تحقیقاتی کمیٹی نے ماری درخواست پر فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی ہوگی یہ وہ کمیٹی ہے جسے ایک مہینہ دیا گیا کہ آپ ایک مہینے میں رپورٹ تشکیل کر کے دیں آج تین سال نو مہینے بعد اس سکروٹنی کمیٹی نے جمع کرائی ہے ۔

سات سال سے جو کیس مینج ہورہاہے منیجمنٹ کی ایک مثال دیتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے10 اکتوبر 2019 کو ایک فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی نے ایک ہسٹورک ابیوز آف لا کیا ہے ٹو ڈلے دی کیس تو یہ پورا کیس مینج ہوا ہے اب جب کمیٹی بنی 2018ءمیں تو 5 اپریل 2018ءمیں کمیٹی نے ایک آرڈر پاس کیا کہ یہ دس فنانشل انسٹومنٹ جو ہیں یہ جمع کرائیں ظاہر ہے کی پی ٹی آئی نے نہیں جمع کرائے جن میں تمام بین الاقوامی اکاونٹس تمام پاکستان کے اندر اکاونٹ آج تک وہ آرڈر پر عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ یہ بین الاقوامی اکاونٹ آج تک پی ٹی آئی میں جمع نہیں کرائے جبکہ چھ کی ہم نے نشاندہی کی ہے جس کو تسلیم کرتے ہیں۔

اپریل 25کے آرڈر کے بعد جب اس کی تعمیل نہیں ہوئی تو 3جولائی 2018 ءکو سکروٹنی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک خط لکھا سٹیٹ بینک کو اس پانچ سالہ عرصے میں دو ہزار نو سے تیرا تمام پی ٹی آئی کے اکاونٹس تمام جو فارن فنڈنگ ہوئی ہے اس کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں سٹیٹ بینک نے 12جولائی کو خط لکھا تمام بینکوں اور اس کے نتیجے میں 28 بینک اکاونٹ اسٹیٹ بینک کے توسط سے تمام بینکوں کے ذریعے الیکشن کمیشن میں جمع ہوگئے یہ وہ اکاونٹ سے جو آج تک ہم سے چھپائیں گئے ہیں ۔

اکبر ایس بابر نے مزید کہاکہ آج تک تین سال نو مہینے تین سال ہونے کو ہے ہمیں آج تک وہ 28 اوریجنل بینک اکاونٹس ہم سے چھپائے گئے اس کے بعد جب ہم نے سکروٹنی کمیٹی سے درخواست کی کہ ہمیں یہ تمام مواددکھایا جائے تاکہ آپ کی مدد کر سکے کہاں کہاں غیرقانونی فنڈنگ ہوئی ہے تو سکروٹنی کمیٹی نے بارہا یہ آرڈر پاس کیا اور اپنے آرڈر شیٹ میں یہ لکھا کہ یہ ہم آپ کو اس لیے نہیں دے سکتے کہ یہ پی ٹی آئی اعتراض کرتی ہے۔

پی ٹی آئی کہتی ہے کہ یہ اکاونٹ خفیہ رکھے جائیں اب آپ اندازہ لگائیں کہ اس سکروٹنی کمیٹی کی جو آزادی ہے وہ ادھر ہی اس کے شکوک پیدا ہو گئے اس کے بعد جب معاملات آگے بڑھے تو ایک اور بڑا مائل سٹون آیا جب الیکشن کمیشن نے جون کو جون 2020 کو سکروٹنی کمیٹی کو ایک ڈیڈ لائن دے کہ17 اگست دو ہزار انیس بیس تک رپورٹ جمع کر ائیں۔ سکروٹنی کمیٹی نے 17اگست کو اپنی رپورٹ جمع کرائی اور 27اگست کو الیکشن کمیشن کا اپنا آرڈر موجود ہے اور چیف الیکشن کمشنر جو موجودہ ہیں ان کے دستخطوں سے جس میں انہوں نے اپنی اسکروٹنی کمیٹی کی پہلی رپورٹ کو رجیکٹ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمارے ٹی آر او پر پر عمل نہیں کیا انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمارے احکامت پر عمل نہیں کیا انہوں نے کہاکہ آپ نے ثبوت کی ویلیوڈیشن نہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی ذمہ داری تھی اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک سکروٹنی کمیٹی 28 اور 30 مہینے بعد مکمل طور پر ناکام ہو جائے الیکشن کمیشن کے اپنے آرڈر کی رپورٹ کے مطابق کیا اس کا قائم رہنا بناتھا لیکن اس کے باوجود ہم مجبور تھے اور الیکشن کمیشن کے تابع اوران کی عزت کرتے ہیں ۔

اگلا مرحلہ آیا ہم نے ان کو درخواست دے دی کہ آپ پی ٹی آئی کے چار ملازمین کو آج بھی ملازمین سنٹرل آفس کے ایک ڈاکومنٹ ہے جس میں پی ٹی آئی کا فنانس بورڈ جس میں سیف اللہ نیازی ، عامر کیانی ، سرداراظہر طارق، ڈاکٹر نعمان ، یونس یہ تمام لوگ موجود ہے اور جس کے نیچے لکھا ہوا ہے کاپی ٹو عمران خان اینڈ عارف علوی یعنی ان کے نالج سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ چار ملازمین کے اکاونٹ میں پیسہ آئے گے اگر چار ملازمین کے اکاوءنٹ میں پیسے کو تسلیم کرتے ہیں۔

ان کے سینٹرل آف فنانس سیکرٹری تسلیم کرتے ہیں تو ہم نے یہ مطالبہ کیا کہ یہ اکاونٹس ان کے ذاتی نہیں ہیں اب ان میں پی ٹی آئی کی ڈونیشن آئی ہیں ہمیں ان کی تفصیلات بتائیں کمیٹی نے تفصیل بتانے سے انکار کیا پوچھنے پر ہم نے ان سے کہاکہ انٹر نیشنل اکاونٹ یہ تسلیم کرتے ہیں آپ اس سلسلے میں کاروائی کریں کمیٹی نے انکار کیا۔

عمران خان نے جاکر اعلان کیا کہ میں چاہتا ہوں کے تم کارروائی اوپن ،ہو لائیو کوریج ہوہم نے درخواست دی کہ کارروائی اوپن ہو لائیو کوریج ہو ہماری درخواست کمیٹی نے مسترد کر دیں تویہ کیس منیج ہو کر یہاں پہنچا کہ14 اپریل کو ایک تاریخی فیصلہ آیا اور فیصلے میں الیکشن کمیشن کا 2021ءکا جس میں انہوں نے ہمیں یہ اختیار دیا پہلی دفعہ کے اپنے دو آڈیٹرز لائیں اور جو پی ٹی آئی نے جمع کروایا ریکارڈ 28 بینک اکاونٹ نہیں جو اسٹیٹ بینک کے ذریعہ آئے ہیں انٹرنیشنل بینک بھی ابھی تک ہمیں شیئر نہیں کیا گیا اس کے آپ پرپروسل کریں ۔

ہم نے اس کی تفصیل سو صفحہ کی رپورٹ ہم نے مینول ہمارے آڈیٹرز نے ہر صفحہ کو سائن کر کے دی یہ ان کے اپنے دستاویزات تھے جس میں انہوں نے تین سال لگائے جمع کرانے میں اس میں دو اعشاریہ دو ارب روپے کی غیرقانونی فنڈنگ نکلی اس میں سولہ سولہ سولہ ہر بینک اکاونٹ سیل کیا گیا یہ تمام حقائق نوبینک ایسے اکاونٹ جن میں سگنیٹری چھپائے گئے جس میں عمران خان شامل ہے ۔

یہ پرنسپل سیکریٹری ہیں اس اکاونٹ کے ہم سے چھپایا گیا تھا اس کے باوجود تمام حقائق سامنے رکھ دئیے اب سکوٹنی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں الیکشن کمیشن اسکروٹنی کمیٹی کوئی اور حکم دیا گیا کہ آپ تین چیزوں کا تجزیہ کریں ۔28بینک اکاونٹس کا اکبر بابر نے جو ثبوت جمع کریں اور پی ٹی آئی نے جو اپنے دفاع میں جمع کرائے ہیں ۔

اس کی رپورٹ آج ہمارے سامنے ہمیں دی گئی ہے ہم نے آج ہی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ جب 28 بینک اکاونٹ ابھی تک ہم سے چھپائی گئے تھے اور اس رپورٹ میں 28 بینک اکاونٹ کا تجزیہ کیا ہوگا ہم یہ توقع کرتے ہیں رپورٹ نہیں دیکھے تو جب تک آپ ٹائپ کرے گا تو نہیں دیں گے جو کہ اپنے اپنے آرڈر میں لکھا ہے کہ ا لیکشن کمیشن نے 2014کے آرڈر میں لکھا ہے کہ جب یہ کیس سامنے آئے گا ۔

ہم نے یہ بھی مطالبہ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ جب آگے پیچھے ہو گئی تو اس میں آوں اس پر مزید اس پر کارروائی کریں گے اب میں آپ کو یہ سمجھتا ہوں بات یاد رکھئے قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک کیسا لڑا ہے اس کیس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہواہے یہ فارنگ فنڈنگ کیس پاکستان کی بقاءکا کیس اور وقت نے ثابت کیا کہ اگر اس گیس پر بروقت کاررائی ہوتی برقت شواہد کی بنا پر فیصلہ آتا تو پاکستان کی آج یہ حالت نہ ہوتی پاکستان کے اوپر یہ قیادت مسلط نہ ہوتی جس نے آج پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے جس نے پاکستان کی قومی سلامتی کو داو پر لگا دیا ہے۔

کیونکہ آپ سن رہے ہیں کہ تمام انڈیپنڈنٹ اکانومسٹ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان بینک کرپٹ سٹیٹ ہے آج کون ذمہ دار ہے یہ ذمہ داری سب پہ آتی ہے یحییٰ خان کو بھی کہتے تھے کہ وہ ایماندا رہے یحییٰ خان نے آدھا ملک گنوایا تھا ۔ا س کے گنوانے کے بعد اس کو ذمہ دار ٹھہرا یا گیا لیکن ملک تو ٹوٹ چکا تھا ۔

آج یہ منصفوں کی ذمہ داری ہے کہ تمام منصف جو جہاں بیٹھے ہیںیہ اکبر بابر کی ذاتی جنگ نہیں ہے یہ اکبر بابرکی پرسنل انا کا مسئلہ نہیں ہے وقت نے ثابت کیا کہ اس کیس کا فیصلہ ہو جاتا تو پاکستان آج نہ ڈوبتا ، پاکستان میںبہتر قیادت ہوتی سیاسی جماعتوں اکاونٹیبلٹی ہوتی میں ان تمام منصفوں سے کہاتا ہوں کہ آج بھی وقت ہے کل یہ وقوت گزر جائےگا اور پاکستان کواگر خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا کیونکہ آپ کی اکاونمی کلیپس کر چکی ہے بیل آوٹ کے ذریعے آپ کی سیکورٹی کمپرومائز ہو رہی ہے اور وہ سیکورٹی مزید کمپرومائز ہوگی برقت فیصلہ کریں ثبوتوں کی بنا پر فیصلہ کریںاور جتنا جلدی آپ فیصلہ کریں گے اتنا جلدی پاکستان اس مصیبت سے بچے گا ۔

انہوں نے مزیدکہاکہ یہ بات یاد رکھئے پاکستان میں ہزار اکبر بار قربان اس پاکستا ن پر سو عمران خان قربان ، لیڈر شپ کا کوئی فقدان نہیں ہے پاکستان میں لیڈر شپ سیاسی جماعتوں سے نکلتی ہے لیڈر شپ سیاسی جماعتوں سے اس وقت نکلتی ہے جب اس کوادارہ بنایا جائے اس کو قانون کے نیچے لے کر آیا جائے یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پاکستان کی ہے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے سات سال ہو چکے ہیں اب مزید وقت نہیں ہمارے ملک کے پاس اگر اس ملک کو بچانا ہے اس ملک کو عذاب سے چھوڑ آنا ہے تو فیصلہ سنائیں اور شواہد کی بنیاد پر اور کھلے دل سے دلیر ہو کر کیونکہ یہ ہم پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں کسی کی ذاتی جنگ نہیں ہے ۔

بعدازں سماعت وفاقی وزیر اسد عمر نے دیگر رہنماوں کے ہمراہ الیکشن کمیشن آفس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے چلایا جائے، کیس کے ملک کی سیاست پر مثبت اثرات ہوسکتے ہیں، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کیلئے بھی اسکروٹنی کمیٹیاں بن چکی ہیں، دونوں کی اسکروٹنی کمیٹیوں سے رپورٹ طلب کی جائے، سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ پر بڑے بڑے لیڈرز نے الزامات لگائے، بینظیر بھٹو نے بھی یہی الزامات لگائے تھے، عمران خان شفاف طریقے سے شوکت خانم کیلئے پیسہ اکٹھا کرتے رہے، الیکشن کمیشن کیساتھ تعاون کیا اور آگے بھی کرنے کو تیار ہیں۔

لیگی رہنما احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان شفافیت کے چیمپئن بنتے ہیں، عمران خان کیس رکوانے کیلئے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں، پی ٹی آئی کی چوری پکڑی جاچکی، پی ٹی آئی کی چوری چھپ نہیں سکتی، اس کیس نے پی ٹی آئی کی شفافیت کا میک اپ دھو دیا، ن لیگ کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست کراس ایف آئی آر کے مترادف ہے، پی ٹی آئی آج تک ایک بھی ثبوت پیش نہیں کرسکی، عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو ایک لاکھ روپے ٹیکس دیتے تھے، وہ کونسے تحفے ہیں جوت وشہ خانہ میں جمع نہیں کرائے گئے ؟۔

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے