اسلام آباد . اسلام آباد اور نئی دہلی میں تعینات پاکستان اور بھارت کے سفارتی مشنوں کے ذریعے ہفتہ یکم جنوری کو ایک دوسرے کے ملکوں کی جیلوں میں قیدیوں کی تفصیلات کا تبادلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ دونوں اطراف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ تین دہائیوں کے لیے طے کیے گئے ایک معاہدے کے تحت جوہری اثاثوں اور تنصیبات کے بارے میں بھی معلومات شیئر کی گئیں۔
پاکستان نے بھارت کے ایک اعلیٰ سفارتکار کو ملکی جیلوں میں قید 628 بھارتی قیدیوں کی تفصیلات فراہم کیں، جس میں 577 ماہی گیر شامل ہیں۔ ان مقید ماہی گیروں پر پاکستان کی سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کے الزام عائد ہیں۔
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گذشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
دونوں روایتی حریف سن 2008 کے معاہدے کے تحت قیدیوں کو قونصلر رسائی فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ اسی معاہدے کے تحت ہر سال جنوری اور جولائی میں ملکی جیلوں میں قید ایک دوسرے کے شہریوں کی فہرست کا تبادلہ لازمی کیا جاتا ہے۔
بھارت کی طرف سے بھی ہمسایہ ملک کے قیدیوں کی تفصیلات شیئر کی گئیں، جس کے مطابق بھارت میں کل 282 پاکستانی قیدی اور 73 ماہی گیر قید ہیں۔ تاہم بھارت نے اپنے تحویل میں موجود پاکستانی شہریوں کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ سن 2021 میں بھارتی جیلوں میں 263 پاکستانی قیدی اور 77 ماہی گیر قید تھے، جبکہ پاکستان میں 277 بھارتی ماہی گیر اور دیگر 59 قیدی موجود تھے
دونوں ممالک ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے کے نتیجے میں گرفتار کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ ماہی گیر جدید نیویگیشن ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب مچھلیاں پکڑنے کے لیے ہمسایہ ملک کے پانیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بحریہ کی سکیورٹی فورسز ان بھٹکے ہوئے ماہی گیروں کی کشتیاں ضبط کر کے انہیں جیلوں میں ڈال دیتی ہیں۔ بعد ازاں ان ماہی گیروں کو دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ ماہی گیر کئی سال بغیر کسی عدالتی کارروائی کے جیلوں میں گزار دیتے ہیں۔
بھارت اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے دیگر شہری قیدیوں کی تفصیلات فراہم کی گئیں ہیں۔ دونوں ملکوں میں گرفتاریاں اکثر ویزا کی طے شدہ مدت سے زیادہ قیام اور ایسے شہروں یا مقامات کا سفر ہوتا ہے، جہاں جانے کی انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔
جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے حامل روایتی حریفوں نے اپنے اپنے جوہری اثاثوں اور تنصیبات کی فہرست کا بھی تبادلہ کیا ہے۔ یہ عمل دسمبر سن 1988 میں طے کیے گئے جوہری تنصیبات اور اثاثوں پر حملہ نہ کرنے کے معاہدے کا حصہ ہے۔ کسی بھی فریق کی جانب سے جوہری تنصیبات اور اثاثوں کے تبادلے کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ فہرست پہلے سے اعلان کردہ جوہری تنصیبات پر مشتمل ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام